سوال (3375)
نکاح میں ایجاب و قبول ایک دفعہ کرایا جائے یا اس سے زیادہ یعنی تین دفعہ بمع دلیل جواب مطلوب ہے۔
جواب
ایجاب و قبول پر جو بھی حکم لگائیں، لیکن جب سے نکاح نامہ میں سائن کا معاملہ آیا ہے، وہ اس درجے پر نہیں رہا، جیسا کہ ان الفاظ “فَقَدْ زَوَّجْتُكَهَا بِمَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ” سے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ قرائن اس طرف جا رہے ہیں کہ گویا کہ ایجاب و قبول ہوگیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میں نے آپ کا نکاح اس سے کروایا لیا ہے، اگرچہ ایجاب و قبول باقاعدہ نہیں ہوا، اس طرح سے ایجاب و قبول نے اپنی حیثیت کم کردی ہے، جب تحریر و سائن کا معاملہ آجاتا ہے تو بات پوری ہوجاتی ہے، اگر آپ کا دل مطمئن نہیں ہو رہا تو آپ دو یا تین دفعہ کردیں، اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
ایجاب قبول ضروری ہے، ایک بار قبول کرنے سے قبول ہو جائے گا، اب وہ دوبارہ کہنا یا تین بارہ کہنا ہے، اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
فضیلۃ العالم عبد المنان شورش حفظہ اللہ
اگر اندیشہ ہو کہ دولہا نکاح کا انکا کردے گا تو کم از کم تین بار اقرار کروالیا جائے، ورنہ ایک دفعہ ہی کافی ہے۔
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
اگر ایک بار اقرار کر لے تو دوبارہ انکار سے تو شیخنا نکاح ختم نہ ہوگا، دولہا کے پاس تو حق طلاق موجود ہے۔ کیونکہ نکاح کو ختم کرنے کے لیے طلاق کا تصور شریعت نے دیا ہے۔
فضیلۃ العالم عبد المنان شورش حفظہ اللہ
سائل: اگر پہلے انکار کرے اور بعد مین ایجابا قبول کرے تو اس کی کیا حثیت ہے؟
جواب: اگر فرضی سؤال ہے تو جواب کی ضرورت نہیں ہے۔
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ