” نشانی یہ تری مجھ کو ہمیشہ اب ستائے گی “

بہن کی جدائی میں لکھا گیا کالم
وہ میری ذات سے وابستہ ہر کرب کو جانتی تھی، اسے میرے ہر دکھ کا خوب ادراک تھا، بلکہ دنیا میں وہی واحد ہستی تھی جو نہ صرف میری زندگی کے مسائل سے آشنا تھی بلکہ ان کے حل کے لیے کوشاں بھی تھی، اسے جب جب میری کسی بھی پریشانی کا علم ہوتا وہ تڑپ اٹھتی اور دریا خان سے کہروڑ پکا کا طویل سفر کر کے آ جاتی۔ زندگی کے آخری لمحات تک وہ اسی کوشش میں تھی کہ کسی طرح میرے مسائل کم سے کم ہو سکیں۔ نفسا نفسی کے اس دور میں کہ آج جب قریبی رشتے داروں کو بھی کسی کے مسائل سے کوئی سروکار ہے نہ ان کو حل کرنے میں کوئی دل چسپی، وہ میرے لیے بادِ نسیم کا جھونکا بن کر آ جاتی۔ بہنوں کا اپنے بھائیوں کے لیے پیار اتنا ہی خالص ہوتا جتنا ماں کا پیار غرض کی آلایشوں سے پاک و پوتر ہوتا ہے۔ ارشد محمود ارشد نے خوب کہا ہے:-
بنایا ہے مصور نے حسیں شہکار عورت کو
الگ پہچان دیتا ہے کہانی کار عورت کو
وہ ماں ہو، بہن، بیوی یا کہ بیٹی ہو سنو لوگو!
ہر اک کردار میں رکھا گیا غم خوار عورت کو
عورت جب اپنے کردار و عمل کو فروزاں اور تابندہ کر لے تو اس کے متعلق اذہان میں جتنی گتھیاں اور گنجلک خیالات ہوتے ہیں، وہ سلجھنے لگتے ہیں۔ عورت کے یہ تین کردار میری زیست کا حاصل ہیں اور میں ان کے سحر سے کبھی نکل ہی نہیں پاؤں گا۔
پہلا کردار میری پھوپھی کا ہے، مَیں نے اپنی زندگی میں ان سے زیادہ عظیم عورت کبھی نہیں دیکھی، ان کی خود کی عمر ستر سال سے زاید تھی مگر وہ اپنی 90 سال سے زاید بیمار والدہ کی دن رات خدمت کرتیں۔25 سال قبل وہ فوت ہو چکیں مگر ان کے کردار و عمل کی ٹھنڈی ہوائیں آج بھی میرے گمان کدے میں عورت کے متعلق ایسے یاسمین اگا دیتی ہیں کہ جن کو خوشبوؤں کے حصار سے باہر نکلنا میرے لیے دشوار ہی نہیں ناممکن ہو جاتا ہے۔ اُن دنوں ہم عہدِ طفولیت میں تھے کہ وہ اپنی والدہ کی خدمت گزاری میں عظمت و رفعت کے ایسے گلاب اگا رہی تھیں کہ جن کہ نکہتیں آج تک مشامِ جاں میں گُھلی ہیں۔ مَیں آج جب سوچتا ہوں تو حیرت زدہ رہ جاتا ہوں کہ ہم ویسے کیوں نہیں بن سکے۔ ان کی والدہ (ہماری دادی جان) کو کھانسی کے باعث جب بلغم آتا اور تھوک دان قریب نہ ہوتا تو وہ کہتیں کہ اماں! بلغم میری ہتھیلی پر کر دو، مَیں اسے باہر پھینک آؤں گی۔ کتنی ہی بار میں نے اپنی آنکھوں سے انھیں ایسا کرتے دیکھا، اُس وقت اُن کی اس خدمت گزاری پر مجھے اتنی حیرت نہ ہوتی تھی، مگر آج جب وہ منظر آنکھوں کے سامنے آتا ہے تو میری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ آج والدین کی اس قدر سیوا تو کجا، ان کی معمولی باتوں میں بھی اطاعت مفقود ہو چکی ہے۔ آج والدین کی سسکتی سسکیاں اور بلکتی آہوں پر بھی اولاد کان دھرنے پر آمادہ نہیں۔
مَیں نے چار مضامین میں ماسٹرز کر رکھی ہے مگر میری آئیڈیل ایک اَن پڑھ خاتون ہے۔ وہ میری ممانی ثریا ہیں، وہ آج بڑھاپے کی چوکھٹ پر قدم رکھ چکی ہیں مگر آج تک ان کا کردار و عمل اور اپنے شوہر کی تابع فرمانی کی لَپٹ میرے دل میں سمائی ہے۔ مَیں نے اپنی زندگی میں اتنی سلیقہ شعار اور ہنس مکھ خاتون نہیں دیکھی۔ انھوں نے زندگی میں بے شمار مصائب و آلام کا مقابلہ اتنے حوصلے کے ساتھ کیا کہ جو میرے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوا۔انھوں نے اپنے خاوند کی فقط اطاعت ہی کو اپنا شعار نہیں بنایا بلکہ اس اطاعت میں بڑے ذوق شوق کا مظاہرہ کر کے اپنے شوہر کی زندگی کو سہلِ ممتنع بنا دیا تھا۔ ایک سال قبل ماموں کا انتقال ہو چکا مگر ان کا حوصلہ اور تحمل میری ڈگریوں کو چت کر ڈالتا ہے۔ مَیں کتنی ہی بار خلوت نشیں ہو کر سوچتا ہوں کہ اس قدر شکر گزاری اور بردباری، اعلا تعلیم کے باوجود ہمارے کردار و عمل میں کیوں نہ پنپ سکی؟ شاید ایسے اوصاف قدرت کی طرف سے خاص لوگوں کو عطا ہوتے ہیں۔
اگر تیسری کسی خاتون سے مَیں متاثر ہوا ہوں تو میری یہ بہن ہے جو آج اپنے اللہ کے حضور پہنچ چکی ہے۔ اپنے خاوند کے ساتھ ان کی وابستگی اتنی گہری تھی کہ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ شادی کے بعد وہ کبھی اپنے خاوند کے بغیر ہمارے گھر آئی ہو اور کبھی اپنے شوہر کے بغیر ہمارے گھر رہی ہو۔ مَیں نے کہا ناں کہ وہ میرے احساسات میں پنہاں ہر کرب سے واقف تھی اور درد کا درماں کرنے طویل سفر کے باوجود آ پہنچتی تھی۔
بھائی بہنوں کا بچپن ساتھ گزرا ہوتا ہے، یہ ساتھ اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے، اور ہنستے بولتے ہیں، ان کی آپس کی یہ محبت رشتوں کو طاقت مہیا کرتی ہے۔
میری شروع سے یہ عادت تھی کہ کھانا کھانے کے بعد اپنے ہاتھ دھو کر بہن کے دوپٹے سے خشک کرتا تھا۔ جب بھی میں ایسا کرتا، اس کے چہرے پر خوشی کے آثار چھلکنے لگتے۔
اسلام چوں کہ نہ صرف اکمل مذہب بلکہ دینِ فطرت بھی ہے اس لیے یہ مذہب ان تعلقات کو اچھے طریقے سے نبھانے اور ان کی پاس داری کے لیے راہ نمائی بھی فراہم کرتا ہے۔چناں چہ صحیح ترمذی میں حدیثِ ہے کہ: جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں اور اس نے ان کے ساتھ اچھا برتاؤ كیا اور ان کے بارے میں اللہ پاک سے ڈرتا رہا تو اس کے لیے جنّت ہے۔
جب جب مَیں عورت کے یہ تین تابندہ روپ دیکھتا ہوں، عورت کے متعلق میرے دل کے تاریک گوشے میں اَن گنت کرنیں جگمگا اٹھتی ہیں۔ بہن کی میّت سامنے رکھی تھی مَیں نے ان کی پیشانی پر آخری بوسہ لیا، جو میں کبھی بھلا نہ طاؤں گا۔ اپنی مرحوم بہن کے لیے ایک شعر؛-
ترے ماتھے کا بوسہ آخری نہ بھول پاؤں گا
نشانی یہ تری مجھ کو ہمیشہ اب ستائے گی

( انگارے۔۔۔حیات عبداللہ )

یہ بھی پڑھیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صبر اہلِ درد کے لیے مشعلِ راہ