سوال (6329)

نماز پڑھتا ہوا بندہ منہ کے آگے چادر وغیرہ نہ رکھنے اس حوالے سے کسی حدیث کا حوالہ مل سکتا ہے؟

جواب

چہرہ ڈھانپ کر نماز پڑھنے کی ممانعت میں ابن ماجہ, ابوداؤد وغیرہ میں جو حدیث ہے, وہ سنداً ثابت نہیں.
سنن ابن ماجہ کتاب: اقامت نماز اور اس کا طریقہ باب: نماز کے مکر وہات
حدیث نمبر: 966

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ سُفْيَانُ بْنُ زِيَادٍ الْمُؤَدِّبُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْحَسَنِ بْنِ ذَكْوَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُغَطِّيَ الرَّجُلُ فَاهُ فِي الصَّلَاةِ.

ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز میں منہ ڈھانپنے سے منع فرمایا ہے۔
اس کی سند میں حسن بن ذکوان مدلس ہیں اور عن سے روایت کررہے ہیں۔ سندہ،ضعیف
چہرہ ڈھانپ کر نماز پڑھنے میں حرج نہیں۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

جی بامر مجبوری ڈھانپ سکتے ہیں جیسے نزلہ فلو، یاکوئی وائرس وغیرہ ہو۔
عام حالات میں بلاعذر شرعی چہرے کو نماز میں ڈھانپنا سلف صالحین مکروہ جانتے تھے۔
امام ابن المنذر کہتے ہیں:

ﻛﺜﻴﺮ ﻣﻦ ﺃﻫﻞ اﻟﻌﻠﻢ ﻳﻜﺮﻩ ﺗﻐﻄﻴﺔ اﻟﻔﻢ ﻓﻲ اﻟﺼﻼﺓ، ﻭﻣﻤﻦ ﺭﻭﻱ ﻋﻨﻪ ﺃﻧﻪ ﻛﺮﻩ ﺫﻟﻚ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ، ﻭﺃﺑﻮ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻭﺑﻪ ﻗﺎﻝ ﻋﻄﺎء، ﻭاﺑﻦ اﻟﻤﺴﻴﺐ ﻭاﻟﻨﺨﻌﻲ، ﻭﺳﺎﻟﻢ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ، ﻭاﻟﺸﻌﺒﻲ، ﻭﺣﻤﺎﺩ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ، ﻭاﻷﻭﺯاﻋﻲ، ﻭﻣﺎﻟﻚ، ﻭﺃﺣﻤﺪ، ﻭﺇﺳﺤﺎ، الأوسط لابن المنذر:3/ 264

بعض آثار سلف صالحین ملاحظہ فرمائیں:

وحدثني الثقفي عن أيوب عن محمد أنه كان يكره أن يغطي الرجل فاه وهو يصلي،
مصنف ابن أبي شيبة: (7492) صحيح
حدثنا أبو داود عن شعبة عن منصور عن إبراهيم ( هو النخعي) أنه كره أن يغطي الرجل فمه وهو في صلاة، مصنف ابن أبي شيبة :(7493) صحيح
حدثنا ابن فضيل عن حصين عن هلال بن يساف عن جعدة بن هبيرة أنه رأى رجلا يصلي وعليه مغفر وعمامة قد غطى بهما وجهه فأخذ بمغفره وعمامته فألقاهما من خلفه،
مصنف ابن أبي شيبة: (7494)
حدثنا أبو خالد الأحمر عن حجاج عن عطاء قال: سألته (عن) تغطية الفم في الصلاة والطواف: فكرهه في الصلاة ورخص فيه في الطواف، مصنف ابن أبي شيبة: (7495) صحيح
حدثنا معن بن عيسى عن مالك بن أنس عن عبد الرحمن بن المجبر أن سالم بن عبد اللَّه كان إذا رأى الرجل يغطي فاه وهو في الصلاة جبذ الثوب جبذا شديدا حتى ينزعه من فيه،
مصنف ابن أبي شيبة: (7496) صحیح
حدثنا يزيد بن هارون عن حجاج عن عطاء أنه كره أن يغطي الرجل فمه في الصلاة،
مصنف ابن أبي شيبة: (7497) صحیح

مزید آثار اسی مقام پر دیکھیے۔
تنبیہ:1 اس بارے جو مرفوع روایت سنن ابو داود (643)،سنن ابن ماجہ:(966)،صحیح ابن خزیمہ:(772،918)،صحیح ابن حبان:(2353) وغیرہ میں ہے وہ سندا ضعیف ہے اور معنا صحیح ہے۔
تنبیہ: 2 مکروہ سے مراد یہاں مکروہ تحریمی نہیں ہے بلکہ مکروہ تنزیہی مراد ہے یعنی یہ ایسا عمل ہے جسے سلف صالحین کی جماعت مکروہ تنزیہی سمجھتی تھی اور پسند نہیں کرتی تھی۔
تنبیہ: 3 سدل کے متعلق راجح یہی ہے کہ یہ مکروہ تنزیہی ہے اور اگر کوئی کرتا ہے تو جائز ہے کیونکہ عبد الله بن عمر رضى الله عنه سے سدل کرنا ثابت ہے دیکھیے مصنف ابن أبی شیبہ: (6651) صحيح اسی طرح مزید جواز کے قائلین کے لئے یہی مقام دیکھیے
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ