سوال (48)
اونچی آواز نماز جنازہ خلاف سنت ہے؟
جواب
نماز جنازہ کے حوالے سے اولی اور بہتر یہ ہے کہ سری پڑھی جائے جیسا کہ ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ہے۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
“السُّنَّةُ فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَازَةِ أَنْ يَقْرَأَ فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى بِأُمِّ الْقُرْآنِ مُخَافَتَةً،ثُمَّ يُكَبِّرَ ثَلَاثًا،وَالتَّسْلِيمُ عِنْدَ الْآخِرَةِ”.[سنن النسائي: 1991]
’’نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ پہلی تکبیر کے بعد سورۂ فاتحہ آہستہ پڑھے،پھر تین تکبیریں کہے اور آخری تکبیر کے بعد سلام پھیر دے‘‘۔
تعلیم کی غرض سے نماز جنازہ جہرا پڑھی جا سکتی ہے ۔ جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما کے عمل سے ثابت ہے ۔
طلحہ بن عبداللہ بن عوف فرماتے ہیں :
“صَلَّيْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَلَى جَنَازَةٍ، فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، قَالَ: لِيَعْلَمُوا أَنَّهَا سُنَّةٌ”.[صحیح البخاری: 1335]
’’ہم نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی تو آپ نے سورة فاتحہ “ذرا بلند آواز سے” پڑھی۔ پھر فرمایا کہ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہی طریقہ نبوی ہے‘‘۔
حضرت طلحہ بن عبداللہ بن عوف بیان کرتے ہیں:
“صَلَّيْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ عَلَى جَنَازَةٍ،فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ،وَسُورَةٍ وَجَهَرَ حَتَّى أَسْمَعَنَا،فَلَمَّا فَرَغَ أَخَذْتُ بِيَدِهِ،فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ: سُنَّةٌ وَحَقٌّ”. [سنن النسائی: 1989]
’’میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے ایک میت کا جنازہ پڑھا۔انھوں نے سورۂ فاتحہ اور ایک اور سورت پڑھی اور (دونوں) بلند آواز سے پڑھیں حتی کہ ہمیں سنائی دیں۔جب وہ فارغ ہوئے تو میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور ان سے اس بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا: یہ سنت اور حق ہے‘‘۔
طلحہ بن عبداللہ بن عوف فرماتے ہیں:
“أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ صَلَّى عَلَى جَنَازَةٍ فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ . فَقُلْتُ لَهُ، فَقَالَ: إِنَّهُ مِنَ السُّنَّةِ أَوْ مِنْ تَمَامِ السُّنَّةِ”.[سنن الترمذي: 1027]
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی تو انہوں نے سورة فاتحہ پڑھی ۔ میں نے ان سے (اس کے بارے میں) پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ سنت ہے۔
تعلیم کی غرض سے جہری نماز جنازہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ