سوال (1245)
نومولود بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں تکبیر پڑھنے کے حوالے سے کیا حکم ہے؟
جواب
یہ عمل سنت سے ثابت نہیں ہے۔
فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ
نومولود کے کان میں اذان دینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں ہے ، اس بارے میں جتنی بھی روایات ہیں ساری ضعیف اور منکر ہیں ،
اس بارے میں سیدنا ابو رافع رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے اس کی سند میں عاصم بن عبید اللہ سخت ضعیف منکر الحدیث راوی ہیں اور اس بارے میں سیدنا عبداللہ بن عباس ، سیدنا عمر اور سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہم سے بھی روایات ہیں یہ سب موضوع روایات ہیں ۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے!

فضیلۃ الباحث واجد اقبال حفظہ اللہ
اس حوالے سے کوئی روایت ثابت نہیں
یہ کہنا کہ اس پر امت کا عمل ہے یہ بھی درست نہیں ، مصر اور اس سے آگے مغربی انتہاء تک کئی علاقے ایسے ہیں جو صحت و ضعف تو بڑی دور اس عمل سے واقف ہی نہیں ہیں ۔
فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ
سائل: بچے کی پیدائش کے موقع پر کان میں اذان دی جاتی ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے اور یہ کہنا کے دائیں کان میں اذان پڑھی جائے گی اور بائیں کان میں تکیبر تو اس حوالے سے بھی رہنمائی فرمائیں۔
جواب: اس سوال کے دو پہلو ہیں، ایک شرعی پہلو ہے اور ایک معاشرتی پہلو ہے، شرعی صورتحال یہ ہے کہ بچے کی پیدائش والی روایات عاصم بن عبیداللہ کی وجہ سے سخت ضعیف ہیں، باقی اقامت والی روایت تو میرے علم میں نہیں ہے، یہ شرعی پہلو ہے۔
باقی معاشرتی پہلو یہ ہے کہ اس کو اصول فقہ کے لحاظ سے شاید “تعم به البلوى” کہتے ہیں، اس لیے کہ معاشرے میں یہ معاملہ عام ہوچکا ہے، اگر آپ خود مختیار ہیں، کوئی بھی آپ کو پوچھنے والا نہیں ہے تو آپ اذان نہ کہیں، لیکن حالات اس قسم کے ہیں کہ اچھا خاصا فساد اور شور مچ جائے گا، پھر اس میں آگے کئی مسائل آ جائیں گے، جس میں سر فہرست قطع تعلقی ہے، اگر ایسا پس منظر ہے تو عرفا اجازت دی جا سکتی ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ
سنت کے اعتبار سے اس کو مشروع و مسنون نہیں قرار دے سکتے ہیں، کیونکہ روایات ضعیف ہیں، باقی امام ترمذی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس پر امت کا عمل ہے، اسی بنیاد پر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ یہ امت کا تواتر عملی کا نام ہے، بس اتنا کافی ہے، اس سے جواز کا درجہ حاصل رہا ہے، باقی مسنون نہ کہیں۔ باقی اقامت والی روایت کو علماء نے موضوع تک ذکر کیا ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
اس حوالے سے جتنی بھی مرویات کتب حدیث میں موجود ہیں وہ سب کی سب ضعیف ہیں۔ والله تعالى أعلم.
محدث العصر الشيخ أبو إسحاق الحويني حفظه الله ورعاه فرماتے ہیں:
“هذا الحديث منكر، ولا يصح وإن صححه الإمام الترمذي حتى قال حسن صحيح، لأن هذا الحديث تفرد به الراوي اسمه عاصم بن عبيد الله وهو منكر الحديث، ولم يتابعوا أحد على هذا الحديث”.
اور استاد محترم فضيلة الشيخ وليد بن راشد السعيدان حفظه الله ورعاه فرماتے ہیں:
“كل حديث في الآذان في أذن المولود فإنه لا يصح … وأما الإقامة فإن كل حديث فيها كذب”.
اس حوالے سے ہمارے فاضل شیخ اور پیارے بھائی فضيلة الشيخ أبو أنس طيبي حفظه الله ورعاه کا مفصل مضمون ہے جو لائق مطالعہ ہے۔ آپ کے الفاظ نقل کرنا مناسب سمجھتا ہوں، آپ فرماتے ہیں: “بچے کے کان میں اذان کہنے والی روایت سخت ضعیف شواہد اس کے موضوع من گھڑت جس روایت کو بطور دلیل کے پیش کیا جا رہا تھا وہ بس محدث البانی رحمہ الله کے کلام پر ہی غور وفکر کر لیں کہ یہ روایت ہرگز شواہد کے ساتھ حسن کے درجہ کو نہیں پہنچتی ہیں ۔ اور بعض اہل علم کا شیطان کا اذان سن کر بھاگنے پر قیاس کرتے ہوئے بچے کے کان میں اذان کہنے کا موقف بھی ہے جو ان کا ذاتی اجتہاد ہے، مگر دین اسلام میں اس موقع پر اذان و کلمہ وغیرہ کہنے پر کچھ بھی ثابت نہیں ہے”۔
والله تعالى أعلى وأعلم والرد إليه أفضل وأسلم.
فضیلۃ الباحث ابو دحیم محمد رضوان ناصر حفظہ اللہ
بارك الله فيكم جميعا و عافاكم
امام ترمذی کے والعمل عليه کا تعلق اذان کہنے کے متعلق نہیں ہے، ہمارے مضمون کو جو عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق پڑھے گا وہ یہ جان لے گا کہ عہد نبویہ سمیت خیر القرون و بعد میں یہ عمل ہرگز کہیں نہیں رہا نہ نظر آتا ہے، قرائن اس کے خلاف ہیں۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ