سوال

اگر سعودی قانون زمزم کے پانی کو اپنے ساتھ لے جانے سے منع کر دے، لیکن ائیرپورٹ پر چیکنگ کے دوران کچھ نہ کہا جائے، تو کیا اس طرح سے پانی اپنے ساتھ لانا چوری کے زمرے میں آئے گا؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

جو لوگ حج یا عمرہ کے لیے جاتے ہیں، ان کے لیے آبِ زمزم اور مدینہ کی کھجوریں ایک بابرکت تحفہ ہوتی ہیں۔ ان اشیاء کو اپنے ساتھ لانا ایک فطری خواہش ہے اور شرعاً اس میں کوئی ممانعت بھی نہیں ہے۔ اس لیے حکومت کی طرف سے زمزم کے پانی کو ساتھ لے جانے پر کلی طور پر پابندی لگانا درست نہیں ہے۔

لیکن اگر سعودی حکومت نے اسکی ایک حد مقرر کی ہے اور مقررہ حد سے زیادہ زمزم لے جانے پر باضابطہ پابندی عائد کی ہے، تو اس قانون کی پاسداری کرنا بہتر ہے، کیونکہ اسلامی تعلیمات ہمیں قوانین کی خلاف ورزی سے بچنے اور دیانت داری اختیار کرنے کی تلقین کرتی ہیں۔ البتہ، اگر کسی کا سامان ائیرپورٹ پر مکمل چیک ہونے کے بعد بغیر کسی اعتراض کے نکل جاتا ہے، تو اسے “چوری” نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ چوری چھپ کر اور خفیہ طور پر کسی کی ملکیت کو بغیر اجازت لینے کو کہا جاتا ہے، جب کہ یہاں ایسا معاملہ نہیں ہے۔

چونکہ حکومت نے اس پانی کو عوامی مفاد کے تحت مخصوص ضوابط کے ساتھ محدود کیا ہے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ مقررہ طریقہ کار کے مطابق ہی زمزم حاصل کیا جائے تاکہ کسی بھی قانونی پیچیدگی یا مشکل میں پڑنے سے بچا جا سکے۔ حدیث میں  بھی آتا ہے:

“الْمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ إِلَّا شَرْطًا حَرَّمَ حَلَالًا،‏‏‏‏ أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا”. [سنن الترمذی: 1352]

’’مسلمان اپنی شرطوں کے پابند ہیں۔ سوائے ایسی شرط کے جو کسی حلال کو حرام کر دے یا کسی حرام کو حلال‘‘۔

اس حدیث کے مطابق مسلمانوں کو اپنے معاہدوں اور شرائط کی پاسداری کرنی چاہیے، جب تک کہ وہ کسی شرعی اصول کے خلاف نہ ہوں۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ