سوال (5694)

ہمارے والد کے انتقال کے بعد کاروبار (چکی اور آرا مشین) مکمل طور پر دو بھائیوں (امین اور اللہ دتہ) کے پاس رہا۔ یہ کاروبار بنیادی طور پر اجرتی نوعیت کا تھا (یعنی گاہک اپنی گندم یا لکڑی لاتے تھے اور محنت و مشین کے ذریعے ان کو پسائی/چیرائی کی خدمات دی جاتی تھیں)
تقریباً 25 سال تک یہ کاروبار انہی دو بھائیوں کے ذمہ رہا، جبکہ دیگر بھائی اس عرصہ میں الگ ہو گئے اور ہر قسم کی ذمہ داری سے آزاد رہے۔ اب وراثت کی تقسیم کے موقع پر اختلاف یہ سامنے آیا ہے کہ:
1. کچھ فریق مضاربت کے اصول لاگو کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
2. جبکہ دوسرا موقف یہ ہے کہ یہ کاروبار چونکہ اجرتی نوعیت کا تھا، اس لیے محنت کرنے والے بھائیوں کو “اجرت المثل” ملنی چاہیے۔
اب معلوم یہ کرنا ہے کہ اس معاملے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

جواب

سوال میں کچھ ابہام ہیں جو سمجھ آئی اس کے مطابق میری رائے یہ ہے۔
پہلی بات تو یہ کہ 25 سال سے وراثت تقسیم کیوں نہیں کی گئی یہ بہت بڑی غلطی ہے۔
دوسری بات کہ تقسیم اگر نہیں بھی ہوئی تو تمام وارثوں سے اجازت اور معاملہ طے کیے بغیر اس کو استعمال کیوں کیا گیا یہ دوسری بڑی غلطی ہے۔ اگر طے کر کے استعمال کیا گیا تھا تو موجودہ بتائی گئی دو صورتیں پوچھنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ اب موجودہ حالات میں اب سے ایک تو جائیداد کو تقسیم والد کے فوت ہونے کے دن کے وارثوں میں تقسیم کیا جائے گا اس میں کوئی مسئلہ نہیں۔
ہاں ان پچیس سالوں میں جو اس جائیداد سے آمدن ہوئی اسکی تقسیم پہ اصل یہ فتویٰ پوچھا گیا ہے کہ اس 25 سال کی آمدن کو کیسے تقسیم کیا جائے یعنی مضاربت کے طریقے یا اجرت المثل کے طریقے سے کیا جائے۔
تو پہلے تو یہ دیکھیں کہ اتنے عرصہ کی مکمل آمدن کتنی ہے بھائیوں کی اجرت کے علاوہ تمام خرچے کتنے ہیں اور باقی منافع کتنا ہے۔ یہ لگانے کے بعد اب اس کو مضاربت کے تحت تو تب سمجھتے جب مضاربت کا ریٹ طے ہوتا جب ریٹ ہی طے نہیں کیا گیا تھا اور طے نہ کرنے میں غلطی ایک کی نہیں بلکہ دونوں کی تھی تو پھر اجرت المثل کے مطابق دو بھائیوں کو اتنے عرصے کی مزدوری دے کر باقی منافع وراثت میں تقسیم کر دیا جائے۔
دیکھیں اگر کسی کی گاڑی کھڑی ہو اور دوسری اس سے پوچھے بغیر اور علم میں لائے بغیر اسکو استعمال کر لے تو اسکا کرایہ مالک کی مرضی کا ہو گا لیکن اگر مالک کو بتا کر استعمال کرے مگر دونوں کرایہ طے نہ کریں تو اجرت المثل دینا ہو گی۔ واللہ اعلم

فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ

والد کے انتقال کے بعد جو کاروبار (چکی اور آرا مشین) ان کے ترکہ میں موجود تھا، وہ تمام ورثاء کا مشترکہ حق تھا۔ کسی بھی وارث کو یہ حق نہیں کہ وہ باقی ورثاء کی اجازت کے بغیر اس ترکہ کو مستقل اپنی ملکیت سمجھ لے۔البتہ اگر دیگر بھائی خود الگ ہو گئے اور عملی طور پر کاروبار میں شریک نہیں رہے، تو پھر سوال یہ ہے کہ بعد کے 25 سال کی کمائی کس حیثیت میں شمار ہوگی۔
آپ کے سوال کے مطابق یہ کاروبار “اجرتی” تھا۔مضاربت اس وقت ہوتی ہے جب ایک فریق سرمایہ لگائے اور دوسرا محنت کرے، اور نفع دونوں طے شدہ تناسب سے بانٹیں۔ یہاں معاملہ یہ نہیں ہے، بلکہ اصل کاروبار مشین اور محنت سے اجرت لینا ہے۔ لہٰذا “مضاربت” کا اطلاق میرے نزدیک یہاں محلِّ نظر ہے۔
چونکہ مشین وغیرہ ورثاء کی مشترکہ ملکیت تھی، اس سے حاصل ہونے والا نفع بنیادی طور پر سب کا حق تھا۔ لیکن چونکہ دو بھائیوں (امین اور اللہ دتہ) نے خود محنت کی تمام وقت اور انتظام دیا باقی بھائیوں نے نہ محنت کی نہ کوئی ذمہ داری اٹھائی اس لیے شریعت کی رو سے ان دونوں بھائیوں کو ان کی محنت کا حق دیا جائے گا۔ یہ حق “أُجرةُ المِثل” ہے۔
ترکہ میں شامل مشین و آلات کی اصل ملکیت تمام ورثاء میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی۔ لیکن اس سے قبل 25 سال تک اس سے حاصل ہونے والی آمدنی میں ان بھائیوں کی “اجرت المثل” نکالی جائے۔ باقی بچی ہوئی آمدنی اصل میں سب ورثاء کا حق ہے، لیکن چونکہ دیگر بھائیوں نے شروع دن سے الگ ہو کر اپنی ملکیت کے حق سے دستبرداری کی یا یہ کہا جائے کہ خاموشی اختیار کی تو یہ عملاً ان کی رضا شمار ہوگی۔
اور اگر اتنے عرصہ کی آمدنی کا حساب کتاب کرنا ممکن نہیں تو صرف اصل ترکہ (یعنی مشین/آلات یا ان کی موجودہ مالیت) کو ورثاء میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
یہ آخری جملہ میری ذاتی رائے ہے علماء کی تائید لازم ہے۔

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ