سوال (5567)
2002 میں گورنمنٹ آف پاکستان نے ایک PSDP پراجیکٹ منظور کیا جس کے تحت تقریباً پاکستان کی 12 ٹاپ یونیورسٹیوں کو 100 ملین، 120 ملین، اور کسی یونیورسٹی کو 200 ملین روپے جاری کیے گئے اس پراجیکٹ/ پروگرام کے لیے گورنمنٹ آف پاکستان کی جانب سے تمام یونیورسٹیوں کو ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ ان پیسوں کا Endowment Fund بنائیں اور اس فنڈ کی Principal Amount نیشنل بینک آف پاکستان میں رکھوائیں اور ان پیسوں سے جو انکم جنریٹ ہو اس سے کمپیوٹر سائنس اور الیکٹریکل انجینیرنگ کے طالب علموں کو سکالرشپ دیں اب سوال یہ ہے کہ اس فنڈ کی انکم سے طالب علموں کو سکالرشپ دی گئی اور دی جا رہی ہے اور اسی انکم سے فنڈ کے لیے جو ملازمین ہائر کیے گئے ان کو بھی تنخواہیں دی جارہی ہیں اب پوچھنا یہ ہے کہ اس فنڈ سے طالب علموں کے لیے سکالرشپ لینا اور ملازمین کے لیے تنخواہیں لینا جائز ہے واضح رہے کہ یہ حکومت کی ہدایات ہیں جن کے تحت بینک میں اس طرح پیسے رکھوائے گئے اور ان ہدایات پر عمل درآمد کرنا گورنمنٹ کی طرف سے ضروری قرار دیاگیا ہے؟
جواب
دیکھیں اگر یہ سود کا معاملہ ہے، جو لکھا ہوا ہے کہ گورنمنٹ نے اس طرح جو ہے پروجیکٹ منظور کیا، اور پھر اس طرح معاملات ہوئے، تو اگر یہ سودی معاملہ ہے، یقیناً اس کے کاغذات دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر اس میں صراحت کر دی گئی کہ یہ سود کا معاملہ ہے، اور پیسے کو سود میں لگا دیا گیا ہے، اور اس کی آمدن سے جو ہے وہ پھر اسکالرشپ دی جا رہی ہے، تو پھر یہ ظاہر سی بات ہے، اس میں حصہ نہیں ڈالنا چاہیے۔ کھانے والا، کھلانے والا، گواہ بننے والا، لکھنے والا، سارے اس میں آ جاتے ہیں۔ تو لہٰذا کھلی آنکھوں کے ساتھ اس طرح کے معاملات میں نہیں جانا چاہیے۔
وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
ویسے تو اس کا جواب کبار مشائخ ہی دیں گے لیکن یہی سوال ایک دن پنجاب یونیورسٹی میں دوران کلاس میں نے اپنے استاذ گرامی۔۔ ڈین فیکلٹی آف اسلامک اسٹڈیز سے کیا تو انہوں نے جواب دیا تھا۔
کہ جب یہودی کے پاس اجرت پر کام کیا جا سکتا ہے تو یہاں کیوں نہیں حالانکہ یہود کی ساری کمائی ہی سودی تھی اور صحابہ کرام کو اس کا پتا بھی تھا پر بھی ان کے ہاں مزدوری کر کے اجرت حاصل کی۔
باقی اس پر مشائخ کرام ہی وضاحت فرما سکتے ہیں۔
فضیلۃ الباحث عبد القدوس القاری حفظہ اللہ
دیکھیں، یہ کہا جاتا ہے کہ ‘عذرِ گناہ بدتر از گناہ’۔ تو اس طرح کے پروفیسر ٹائپ کی جو شخصیات ہوتی ہیں یا نام نہاد اسکالرز ہوتے ہیں، ان سے پوچھا جائے، کیونکہ وہ ہر بات پر کیڑے نکالتے ہیں۔ مثلاً بہت سے لوگ ایسے ملیں گے جو بڑا دین کا چرچہ کر رہے ہوتے ہیں، لیکن ان کی اپنی آل اولاد بگڑی ہوتی ہے۔ اب ہم ان سے کہیں کہ بھئی یہ کیا ہے؟ تو وہ کہتے ہیں کہ نوح علیہ السلام کا بیٹا بھی ایسا تھا۔ بھئی نوح علیہ السلام کا بیٹا مسلمان نہیں تھا، آپ اپنے بیٹے کو بھی کفر کی ڈگری لکھ کے دینا چاہتے ہیں؟ یہ ان سے پوچھا جائے۔
اسی طرح اگر وہ یہودی سے استدلال کر رہے ہیں کہ ان سے تجارت ہوتی تھی، ان کے پاس نوکری ہوتی تھی یا جو بھی ہے، کوئی نہ کوئی چیز ہاتھ لگ جاتی اس طرح کی، تو کیا کہنا چاہتے ہیں وہ؟ موجودہ جو کلمہ گو ہیں، وہ جو چاہے کرتے پھریں، اور پھر دلیل یہاں کہاں سے لائیں؟ یہودیت سے نکال کر لائیں؟ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں؟ یا ان کو یہودی کی طرح سمجھتے ہیں؟ یہ کہنا چاہتے ہیں؟ کسی بات کی وضاحت تو کریں نا، یہ کیا بات ہوئی؟
مسلمان کتاب و سنت کا پابند ہے، نہ کہ سلف کے طریقے سے ہٹ کر چلے۔ لہٰذا اس کو اہل کتاب پر قیاس کرنا، یہ قیاس مع الفارق ہے۔ اس سے امت کو اہل کتاب کہا ہی نہیں جا سکتا۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ