سوال (4912)
ایک آدمی کے پاس چار لاکھ روپے ہیں، وہ دوسرے بندے کو کہتا ہے کہ آپ یہ چار لاکھ روپے لے لیں، مجھے ماہانہ تیس یا چالیس ہزار دیں، کیا یہ جائز ہے، اگر یہ جائز نہیں ہے تو اس کی کونسی جائز صورت ہو سکتی ہے؟
جواب
سوال یہ ہے کہ وہ پیسے کیوں دے رہا ہے؟ اگر قرضہ دے رہا ہے تو قرضے پر اضافی رقم لینا سود ہے، اگر وہ کاروبار میں اس رقم کو لگانا چاہ رہا ہے تو اصل رقم پر نہیں بلکہ پرافٹ پر فیصدی تناسب طے ہوگا، ایسے تیس یا چالیس ہزار نہیں لے گا، باقی نفع پرسنٹیج کے حساب سے لے سکتا ہے، دس، بیس یا تیس فیصد جس پر بھی اتفاق ہو جائے، نفع پرسنٹیج کے حساب سے لینا جائز ہوگا۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل:شیخ صاحب وہ چار لاکھ دے رہا ہے، تو منافع سے کس طرح فیصد نکالے گا، یہ سمجھا دیں؟
جواب: چار لاکھ روپے اس بندے کو دینے ہیں، ہر ماہ جو بھی نفع ہوگا، اس میں سے دس فیصد دینا ہے، آپ اور سامنے والے جس پر بھی راضی ہو جائیں، جس پر بھی طے ہو جائے، بس یہ بات ہے، فیصد نکالنا آسان ہے، پرسنٹیج اگر آپ طے کریں گے تو نفع کم زیادہ ہوگا، باقی پیسے فکس کرکے لینا یہ جائز نہیں ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ