سوال (4172)
ایک بندے نے دس پندرہ لوگوں سے پیسے لے کر کاروبار شروع کیا ہے، اس نے چار پانچ سال جو کاروبار کیا ہے، اس میں یہ تھا کہ جو پرافٹ آتی تھی، اس پرافٹ میں سے ان کو بھی حساب سے جو بنتا تھا، وہ دیتا تھا، وہ سود کی شکل میں نہیں تھا، کبھی ایک پرسنٹ، کبھی دو پرسنٹ اور کبھی ڈیڑھ پرسنٹ دیتا تھا، وہ کاروبار ڈوب گیا ہے، اب وہ بندہ ان دس پندرہ بندوں کا قرضدار ہے، وہ بندہ جو ان کو پرافٹ دیتا تھا، وہ ویئرزشن کے ساتھ ایڈ ہوتا جا رہا ہے، اس طرح وہ بندہ قرضے میں آ چکا ہے، اب اس بندے نے اپنا گھر گروی رکھوا کر لون لے کر کاروبار کر رہا ہے، اب میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ بندہ اس لون والے کاروبار سے زکاۃ دے گا، اگر زکاۃ دے گا تو کیا جو اس پر قرضہ چڑھا ہوا ہے، وہ اس زکاۃ کے پیسوں کو وہاں قرضہ اتارنے کے لیے دے سکتا ہے؟
جواب
کاروبار میں یہ طریقہ ہوتا ہے کہ جب ایک شخص کا پیسہ ہوتا ہے، دوسرے کی محنت، جب وہ کاروبار ڈوب جاتا ہے، تو اصول یہ ہے کہ جس کا پیسہ ڈوب گیا ہے، محنت کرنے والا اس کو ایک روپیہ بھی نہیں دے گا، بشرطیکہ نیت درست ہو، کیونکہ اس میں محنت کرنے والے آدمی کا کوئی قصور نہیں ہے، اگر ان کا پیسہ ڈوبا ہے تو اس کی محنت ڈوبی ہے، اگر وہ پیسہ واپس کرنے کا پابند ہی نہیں ہے تو قرضے کی واپسی کیسی؟
فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ