سوال (4420)
آج کل لوگ پاکستان کی فوج جو کہ ملک کا دفاع کرتی ہے اور انڈیا سے باڈروں پر لڑتی ہیں ان پر یہ طعنہ دیتے ہیں کہ یہ انکی ڈیوٹی ہے جس کے وہ تنخواہ لیتے ہیں۔ کیا اس طرح کے الفاظ پاک فوج کے لئے بولنے چاہیے۔ کیونکہ مجھے یہ الفاظ بہت برے لگے ہیں۔
جواب
نوکری ہر کوئی کرتا ہے، نوکری کرنا کوئی جرم کی بات نہیں ہے، اس طرح کی نوکری کرنا ہر بندے کا کام نہیں، اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، اس طرح کی تنقید صحیح نہیں ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
اندر کا بغض ہے، یہ وظائف فوجی صحابہ کے بھی مقرر ہوئے ہیں، مال غنیمت بھی ملا ہے۔
فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ
سائل: السلام علیکم شیخ محترم یہاں تک کہتے ہیں کہ وہ ہم پر کوئی احسان نہیں کرتے ہیں۔
جواب: دماغی علاج کی ضرورت ہے۔
فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ
جی ہاں! لوگ تو بہت کچھ کہتے ہیں، ہم ایک دوسرے کو بھی کہہ جاتے ہیں، العوام کالانعام ہے، باقی اگر خواص ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے، بہرحال ایسے نہیں کہنا چاہیے، ایک عالم ہے اور ایک آفیس بوائے ہے، فرق تو کرنا پڑے گا، باقی احسان کوئی کسی پر نہیں کر رہا۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
دیکھیں پیارے بھائی قرآن کہتا ہے کہ اہل کتاب غلو کرتے تھے غلو کا معنی کسی کو اسکے مقام سے بڑھانا جیسے عیسائی عیسی علیہ اسلام کے ساتھ کرتے تھے یا گھٹانا جیسے یہودی انکے ساتھ کرتے تھے اور ہمارے ہاں بھی سب سے زیادہ یہی افراط و تفریط ہر معاملے میں پایا جاتا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ تم بھی وہی کرو گے جو اھل کتاب کرتے تھے۔
مذکورہ سوال کرنے والے ایک طرف کے غالی ہیں کیونکہ جہاد کرنے کے لئے یہ لازمی نہیں کہ جس کے ساتھ مل کر آپ جہاد کر رہے ہیں یا جس کے لئے جہاد کر رہے ہیں وہ کوئی متقی بندہ یا خلافت اسلامیہ وغیرہ جیسی کوئی چیز ہے بلکہ فتح مکہ کی جو وجہ بنا تھا وہ مسلمانوں کے ایک کافر حلیف قبیلے پہ ظلم بنا تھا یعنی مسلمان کسی حلیف کافر کو بچانے کے لئے جہاد کرتا ہے تو وہ بھی جہاد ہی ہوتا ہے دوسرا یہ کہ مال غنیمت یا تنخواہ کا ملنا جہاد کو ختم نہیں کرتا یہ تو جہاد کا لازمی حصہ ہے ہاں نیت ہی صرف اور صرف مال غنیمت یا تنخواہ ہو تو تب وہ جہاد نہیں ہو گا جیسا کہ بخاری کی روایت ہے کہ جب یہی جہاد میں مال غنیمت کے حوالے سے پوچھا گیا تھا تو فرمایا تھا کہ ارادہ آپ کا اللہ کا کلمہ بلند کرنا ہو اب یہ بھی یاد رکھیں کہ جب مسلمانوں نے کافر حلیف قبیلے کی حمایت میں لڑائی کی تھی تو وہاں اگرچہ اس وقت حلیف قبیلہ کی مدد ہی تھی لیکن چونکہ انکے ساتھ حلیف تھے جو وہ اسلام کو تقویت دے رہے تھے تو وہ بھی کلمۃ اللہ ھی العلیا میں آتے تھے۔
البتہ اسکی دوسری انتہا بھی ہوتی ہے کہ جو بھی ہے چاہے وہ مشرک ہے چاہے وہ عیسائی ہے یا ہندو یا مرزائی ہے ان سب کو ہی شہید یا غازی کہنے لگ گئے ہیں سب کو اپنے اپنے مفاد عزیز ہیں ایک عالم کے لئے لازمی ہے کہ کونوا قوامین بالقسط شھداء للہ کہ حق کی گواہی دے کہ شہید صرف موحد ہی ہو گا باقی شہید نہیں ہوں گے۔
ہاں یہ بھی یاد رکھیں کہ اس دوسری انتہا کے ردعمل میں بھی ایک انتہا کھڑی ہو جاتی ہے کہ جی جو غیر موحد یا غیر مسلم جنگ میں مارا جائے اسکی عزت ہی نہ کرو تو یہ بھی دراصل غلو ہے کیونکہ اسلام کے لئے جب وئی کافر بھی قربانی دیتا ہے تو اسکی دنیاوی لحاظ سے تعریف کرنا اسکا اعتراف کرنا اور اس پہ احسان کرنا بھی عین سنت رسول ﷺ ہے جیسا کہ مطعم بن عدی ایک مشرک کافر کے بارے رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا کہ اپنے چچا عباس کا فردیہ بدر میں معاف نہیں کیا لیکن بخاری کی روایت میں ہے کہ کہا آج معطم بن عدی ہوتے اور وہ کہتے تو میں بدر کے قیدیوں کو فدیہ کے بغیر رہا کر دیتا۔
پس آج بھی کوئی غیر مسلم یا غیر موحد جنگ میں مرتا ہے تو اسکو احسان سمجھنا اسکی تعریف کرنا اسکا بدلہ دینا یہ سب سنت ہی ہے لیکن اسکو شہید یا غازی نہ بنانا یہ فرض ہے جیسا کہ عبداللہ بن جدعان جو بہت نیک اور سخی تھا اور جس نے بعثت سے پہلے غریبوں مظلوموں کی مدد کا ایک معاہدہ حلف الفضول کیا تھا جس میں رسول اللہ ﷺ نے شرکت کی اور بعثت کے بعد بھی سراہا تھا اسکے بارے مسلم میں روایت ہے کہ عائشہ نے پوچھا کہ یہ سب کام اسکو فائدہ دیں گے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں۔
پس غیر مسلم غیر موحد سلیم فطرت انسان کی تعریف کرنا اپنی جگہ لیکن اسلام کی اصول اپنی جگہ ہیں.
فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ