سوال (4362)
ایک خاتون کا سوال ہے کہ میرے والد صاحب کی زندگی کے آخری آخری ایام میں ان کے کسی پلاٹ پر مقدمہ ہوا ہے، جس میں میرے شوہر کا نام بھی بغیر کسی جرم کے آ گیا۔
انکے والد صاحب نے کہا کہ جب تک مقدمہ چل رہا ہے، تب تک سب بچے اس کا خرچ مل کر برداشت کریں، لیکن میرے شوہر کے بے گناہ ہونے کے باوجود کسی نے مجھے خرچ نہیں دیا. اب میرے والد صاحب کی وفات کے بعد میرے بھائی میرے حصہ سے 5 لاکھ کاٹ رہے ہیں اور اپنے بھی 5 لاکھ کاٹ کر الگ رکھ رہے ہیں کہ یہ مقدمہ کے لیے ہیں جب تک چلے گا ، کیا یہ ظلم نہیں کہ میرا شوہر ایک ملازم ہے اور اسے بے گناہ کیس میں نامزد ہونے کے بعد اور وہ لوگ لاکھوں، کروڑوں کی جائیداد ہونے کے باوجود نہ تو میرے شوھر کو کوئی خرچ دیا گیا اور نہ ہی کوئی تعاون و صلہ رحمی کا سلوک کیا گیا اور اب الگ سے میرے حصہ سے بھائیوں کے برابر 5 لاکھ مزید کاٹ رہے ہیں جب بیٹی کو آدھا حصہ مل رہا ہے تو اس کا بھی مقدمہ میں آدھا حصہ ہی کاٹنا چاہیے۔
جواب
والد مرحوم کے پلاٹ پر مقدمہ چل رہا ہے، جس میں سائلہ کے شوہر کا نام بھی آ گیا۔ والد نے زندگی میں کہا کہ مقدمے کا خرچ سب مل کر برداشت کریں۔ سائلہ کا کہنا ہے کہ اس کے شوہر کو نہ مالی تعاون ملا، نہ مقدمے کا کوئی الزام ثابت ہے۔ والد کی وفات کے بعد بھائی اس کے وراثتی حصے میں سے 5 لاکھ مقدمے کے نام پر کاٹ رہے ہیں۔
وراثت شرعی حق ہے، کوئی کمی یا زیادتی جائز نہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں وراثت کے حصے مقرر فرما دیے ہیں۔ بیٹی کا حصہ نصف بیٹے کے حصے کے برابر ہے، لیکن اسے اپنے مکمل حصے پر حق حاصل ہے۔
کوئی بھی وارث دوسرے وارث کے حق میں کمی زبردستی یا ناحق نہیں کر سکتا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: “آباؤ اجداد اور اولاد کے بارے میں تم نہیں جانتے کہ ان میں کون نفع کے لحاظ سے قریب تر ہے، یہ اللہ کی طرف سے فرض کردہ ہیں۔ بے شک اللہ خوب جاننے والا، حکمت والا ہے.” (النساء: 11)
اگر مقدمے کی نوعیت پراپرٹی یا ترکہ سے متعلق ہے، تو اس کا خرچ ترکہ میں سے ادا ہوگا، تمام ورثاء کی ملکیت کے مطابق۔ اگر مقدمہ مرحوم کے ذاتی قرض یا نقصان سے متعلق ہو، تو بھی وہ پہلے ترکہ سے ادا ہوگا، پھر وراثت تقسیم ہوگی۔ بیٹی کے حصے میں بھی کٹوتی اس تناسب سے ہو گی جس تناسب سے دیگر بھائیوں کے حصے کٹ رہے ہوں، یعنی: اگر بیٹے کا حصہ 10 لاکھ ہے اور اس سے 5 لاکھ کٹے جا رہے ہیں (یعنی 50٪)، تو بیٹی سے بھی صرف 50٪ کٹوتی کی جا سکتی ہے، یعنی اگر اس کا حصہ 5 لاکھ ہے تو اس میں سے ڈھائی لاکھ۔ شوہر کا نام مقدمے میں آنا جرم نہیں اگر شوہر ملزم نہیں بلکہ نامزد ہونے کے باوجود بےگناہ ہے، تو اس پر یا اس کی بیوی (یعنی آپ) پر مالی بوجھ ڈالنا شرعاً اور اخلاقاً ظلم ہے۔ایسا شخص مدد کا مستحق ہے، سزا کا نہیں۔ بہنوں کے ساتھ تعاون اور صلہ رحمی فرض ہے.قرآن و سنت میں بہنوں کے ساتھ نرمی، عدل، اور صلہ رحمی کا بار بار حکم ہے۔ اگر بھائی لاکھوں کروڑوں کے مالک ہوں اور بہن (یا بہنوئی) کو مقدمے کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑے، تو یہ قطع رحمی اور ظلم کے زمرے میں آتا ہے۔
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ