ایران بلا شبہ حماس کی مدد کر رہا ہے اگرچہ آپ ایرانیوں کو عقائد کی وجہ سے جیسا مرضی سمجھیں لیکن انکے مفاد اور انکی جانب بالکل صاف اور واضح ہے اور اسی بنیاد پر سبھی ممالک ایران سے تعلقات بناتے اور بگھاڑتے ہیں، کوئی بھی ملک اتنا بیوقوف نہیں ہوتا جو اس طرح کے معاملات بلا سوچے سمجھے طے کرے اور نہ تو روس چائنہ اتنا بیوقوف ہے جسے پتہ ہی نہ ہو کہ ایران بھی امریکہ کی پروکسی ہے۔
طالبان کی مدد بھی بہت سے ایسے ممالک کرتے تھے جو مختلف نظریات کے حامی تھے اور آج کے دور میں نیشنل اسٹیٹ پر ایسے ہی معاملات طے پاتے ہیں۔ مفاد آگے ہوتا ہے نظریاتی یا ثقافتی ہم آہنگی ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس تناظر میں سنیت اور شیعت کا فرق کرتے ہوئے عجیب تبصرے کرنا تعصب کی پٹی باندھ کر زبردستی خود کو حق پر جبکہ دوسرے کو باطل پر ثابت کرنے والی ہی بات ہے۔
حماس افرادی لحاظ سے اکثریت سنیت پر مشتمل تنظیم ہے اور اس میں سب سے زیادہ سلفی اور سنی لوگ ہیں جن میں سے کچھ سعودی جامعات سے تعلیم یافتہ ہیں اور اپنے حلقات میں اپنے لٹریچر کی بنیاد پر عقائد سمجھاتے اور بتاتے ہیں۔ ایران دشمنی میں اتنا بھی زیادہ نہیں اندھا ہونا چاہیے کہ حقیقت کو بھی غلط قرار دیں۔
حماس کی سر پرستی میں جب عرب ممالک نے سیاسی بیلنس برقرار رکھنے کیلئے ساتھ چھوڑا تو ایران نے اسکا ہاتھ تھام لیا کیونکہ ایران تو کھلا دشمن تھا۔ امریکہ کا بہت دیر سے اور سوویت یونین کیساتھ اسکی پرانی دوستی تھی سو اسکا بلاک واضح تھا لیکن عرب ممالک نے سیاست کرنا تھا سو انہیں مجبوراً ایسا کرنا پڑا گویا کہ وہ بھی اچھا کر رہے ہیں اور اس جنگ میں بہت اچھا کھیل رہے ہیں۔
حماس کے راہنما شیخ خالد مشعل سے براہ راست سوال ہوا کہ ایرانی شیعے لوگ آپکی مدد کر رہے ہیں تو گویا آپ انکے لوگ ہیں۔انہوں نے کہا کہ:سعودیہ اور فلاں اور فلاں اسلامی ملک ہماری مدد کر دے تو ہم ایرانیوں سے امداد لینا بند کر دیتے ہیں۔
باقی اگر آپ ایران یا دوسرے کس ملک سے یہ مطالبہ کرتے ہیں وہ اسرائیل پر اپنی سرکاری فوج کے ساتھ چڑھائی کردے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ وہ امریکہ اور مغربی ٹولے سے براہ راست جنگ کرے اور ایسا موجودہ نظم میں کوئی بیوقوف ہی کرے گا۔
تمام عرب ممالک ہی بھلا وہ اردن، لبنان ہو یا عراق و شام ہو چاہے یو اے ای ہو یا قطر و بحرین یہ سبھی اسرائیل کیخلاف ایک ہی پیج پر ہیں.اگر آپکو عرب ممالک کی چال میں لڑکھڑاہٹ اور ذرا سی تبدیلی نظر آتی ہے تو وہ صرف سیاسی کھیل ہوتا ہے تاکہ سیاسی حساب بیلنس رہے اور آج کے دور میں سیاست عالمی لیول پر ایسے ہی کھیلی جاتی ہے۔ عام لوگ سمجھتے ہیں کہ سیاسی کھیل صاف صاف ہو کہ ہر شخص جان سکے ان کو سمجھنا چاہیے کہ جنگ تو ویسے ہی دھوکہ دہی سے کی جاتی ہے یہ تو پھر بھی آجکا دور ہے جس میں آرمی سے زیادہ اسکی انٹیلیجنس ایجنسی کا کام زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔
اور عرب ممالک کیلئے اسرائیل کیخلاف جانا صرف مذہبی نقطئہ نظر نہیں بلکہ یہ نکی بقاء اور مفاد کیلئے بھی بہت ضروری ہے کیونکہ وہ بھی جانتے ہیں کہ اسرائیل کے کیا نظریات ہیں اور اسکی پشت پناہی کرنے والوں کے کیا نظریات ہیں جو موقع ملتے ہی تمام کے تمام جزیرہ نما عرب کو ہڑپ کرنے میں ذرا برابر بھی دیر نہیں کرینگے تاکہ مڈل ایسٹ جیسا اہم خطہ انکے پاس چلا جائے۔
اسرائیل کوئی ایک ملک کا نام نہیں بلکہ پورے مغربی بلاک جس میں جاپان،ساؤتھ کوریا،آسٹریلیا،نیوزی لینڈ، یورپی یونین اور امریکہ کینیڈا سمیت تقریباً پچاس کے قریب ممالک کا گٹھ جوڑ ہے اور اسرائیل مڈل ایست میں انکی چابی ہے جسے وہ کسی بھی صورت گنوا نہیں سکتے۔ آپ انکے پرانے اور نئے بیانات پڑھ کر جان لیں گے کہ وہ کسی بھی صورت اسرائیل کا ساتھ نہیں چھوڑنے والے بھلے اسرائیل جتنے بھی انسانی حقوق غصب کرلے…!
ایسا کرنا انکے بقاء اور بنیادی مفاد کیلئے بھی ضروری ہے اگرچہ انکے درمیان آپسی اختلافات اور تنازعات بھی بہت سارے ہیں لیکن اکٹھے رہنا اور ایک ہی بیانیہ بنانا یہ ان مغربی بلاک کی بنیادی شق ہے جس پر وہ آج تک قائم ہیں اور یہی انکی بقاء کیلئے ضروری ہے.
انکے ساتھ بڑے دماغ والے لوگ موجود ہیں انکی ایجنسیاں بہت خطرناک ہیں اور دنیا کی زیادہ تر اکانومی پر بھی انہی ممالک کا قبضہ ہے آپ دیکھ لیں دو ساتھ میں آزاد ہونے والے ملک اور ساتھ ہی بسنے والے ایک کا بلاک مغربی ہے تو وہ امیر ہوگا جبکہ دوسرا غریب کیونکہ اسکا بلاک دوسرا ہے۔ ساؤتھ کوریا اور جنوبی کوریا کی مثال بھی واضح ہے۔ یہ انہی مغربی ٹولے کی بدمعاشی ہے اسی بناء پر جاپان تباہ ہوکر بھی آج دنیا کی چوتھی بڑی اکانومی ہے۔
تو اس ٹولے سے جان چھڑانا ساتھ ہی ان سے جنگ جیتنا بڑا مشکل کام ہے جس میں تمام ہی عرب ممالک ایک اچھی گیم پلاننگ کیساتھ کھیل رہے ہیں اور اس وقت سعودی حکومت کی روس چائنہ بلاک کیساتھ بلخصوص برکس میں ان ممالک کا شامل ہونا یہ بھی بہت بڑی گیم کا حصہ ہے۔

امریکہ نے سعودیہ کو برکس سے روکنے کیلئے ایٹمی طاقت بنانے کی بھی پیشکش کی لیکن اس کے ٹھکرا دی کیونکہ امریکہ جانتا تھا کہ عرب ممالک اب کس طرف جارہے ہیں۔
ادھر پوٹن افریقہ میں فرینچ کلونین ازم اور یورپ کا استعمار ختم کر رہا ہے سو نارتھ افریقہ کے سوائے ایک دو کے سبھی ممالک آج پوٹن کیساتھ کھڑے ہیں اور پوٹن جانتا ہے کہ اس وقت اسکا ساتھ یہی مسلم ممالک دے سکتے ہیں جو اپنے نظریات اور ثقافت کا خیال رکھنے والے ہیں اسی لیے آپ دیکھ لیں برکس میں جتنے بھی ممالک ہیں ایتھیوپیا سمیت وہ سارے کہ سارے مذھبی یا ثقافتی حیثیت رکھتے ہیں.اور یہ بلاک بھی ان کیخلاف بنایا گیا ہے جن کے نزدیک مذہب یا تہذیب نام کی کوئی چیز معتبر ہی نہیں میں مغربی بلاک کی بات کر رہا ہوں۔
اور یہ وہ بڑی گیم ہے جس کو خراب کرنے کی کوشش امریکہ کر رہا ہے اور جنگ چھیڑنے کے بہانے ڈھونڈ رہا ہے تاکہ فصل تیار ہونے سے پہلے ہی تباہ ہوجائے۔

عمیر رمضان