فلسطین پر اسرائیل کی جاری بمباری اور تباہی پھیلانے کا عمل  حماس کے حالیہ حملوں کا رد عمل نہیں ہے بلکہ یہ ان کی پرانی حکمت عملی ہے۔  اسے دو ماہ قبل اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے ایک انٹرویو میں بیان کیا ہے۔ اس میں اس نے اسرائیل فلسطین قضیے کے ضمن میں اپنا پورا بیانیہ بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ حریف کا بیانیہ ویسے بھی علم میں ہونا چاہیے، لیکن یہاں اس کی اہمیت اس پہلو سے بھی ہے کہ یہ بیانیہ عالمی رائے عامہ کو کیسے متاثر کرتا ہے۔

نیتن یاہو کے استدلالی مقدمات کو ترتیب سے یوں بیان کیا جا سکتا ہے:

1۔ اس قضیے کی اصل جڑ یہ ہے کہ فلسطینی، ایک یہودی ریاست کا وجود قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان کا یہ موقف اسرائیل کے قیام سے پہلے بھی رہا ہے اور بعد میں بھی، 67 کی جنگ سے پہلے بھی رہا ہے اور بعد میں بھی۔ اس لیے ریاست کی حدود کا تعین اصل مسئلہ نہیں، اصل مسئلہ یہودی ریاست کے وجود کو قبول نہ کرنا ہے۔

2۔ فلسطینیوں کا داخلی اختلاف صرف اس حوالے سے ہے کہ اسرائیل کو ختم کرنے کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کیا جائے یا سیاسی حکمت عملی سے یہ مقصد حاصل کیا جائے۔ حماس پہلے طریقے کی اور باقی فلسطینی دوسرے طریقے کے قائل ہیں، لیکن بنیادی مقصد دونوں کا ایک ہے۔

3۔ اسرائیل کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام اس لیے قابل عمل نہیں کہ فلسطینی اس ریاست کو مرکز بنا کر اسرائیل کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ اسی لیے اسرائیل نے جب غزہ کا علاقہ خالی کر دیا تو حماس نے اقتصادی ترقی اور امن پر توجہ دینے کے بجائے غزہ کو اسرائیل کے خلاف دہشت گردی کا گڑھ بنا دیا۔ (یہی کچھ لبنان کا علاقہ خالی کرنے کے بعد ہوا جہاں حزب اللہ نے قبضہ کر لیا جو اسرائیل کو نقشے سے مٹانا چاہتی ہے)۔

4۔ اسرائیل جو بھی علاقہ خالی کرتا ہے، وہاں سے اسے جواب میں امن کے بجائے تشدد ہی ملتا ہے۔ اس لیے آزاد فلسطینی ریاست جیسے ہی قائم ہوگی، وہ ایران کی ایک پراکسی قوت بن جائے گی اور اسرائیل کی تباہی کے لیے کام کرنا شروع کر دے گی۔ پس دریائے اردن اور بحر متوسط کے درمیان واقع اس چھوٹے سے علاقے کو دو ریاستوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔

5۔ یہودیوں اور عربوں کو یہیں اکٹھے ایک دوسرے کے ساتھ رہنا ہوگا۔ علاقے کی سیکیورٹی کی ذمہ داری اسرائیل کے پاس رہے گی۔ فلسطینیوں کو اپنے معاملات چلانے کے لیے مکمل اختیار دیا جا سکتا ہے، لیکن مکمل خود مختاری نہیں دی جا سکتی جس سے وہ اسرائیل کے لیے خطرہ بن سکیں۔ اس لیے پورے علاقے کی سیکیورٹی کا بندوبست اسرائیل کے ہاتھوں میں رہنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور حل قابل عمل نہیں۔

6۔ جو یہودی آبادیاں 1967 کے بعد تعمیر ہو چکی ہیں، ان کو گرایا نہیں جا سکتا۔ یہ ناقابل عمل ہے۔ یہ بڑے بڑے رہائشی بلاک ہیں جن پر کثیر سرمایہ صرف ہوا ہے اور کوئی بھی ہوشمند شخص یہ نہیں سمجھتا کہ کسی حل تک پہنچنے کے لیے ان کو گرانا ضروری ہے۔ جیسے اسرائیل کے شہروں میں عرب یہودیوں کے ساتھ رہ رہے ہیں، اسی طرح عربوں کے علاقے میں یہودی بھی ان کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔

7۔ اب تک عمومی سوچ یہ رہی ہے کہ فلسطینیوں کا مسئلہ حل کیے بغیر عرب دنیا کے ساتھ تعلقات نہیں بنائے جا سکتے۔ میری سوچ اس کے برعکس یہ ہے کہ عرب دنیا کے ساتھ تعلقات بنائے بغیر فلسطینی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ فلسطینی، عرب دنیا کا 2 فیصد ہیں۔ بجائے اس کے کہ 98 فیصد سے تعلقات کو 2 فیصد کے رحم وکرم پر چھوڑا جائے، براہ راست 98 فیصد عرب دنیا سے رابطے استوار کرنے چاہییں۔

8۔ ابراہیمی معاہدات کے ذریعے سے میں نے فلسطینیوں کو الگ رکھ کر کئی عرب حکومتوں کے ساتھ براہ راست تعلقات قائم کیے ہیں اور سعودی عرب کے ساتھ بھی کرنے جا رہے ہیں۔ فلسطینیوں کے ساتھ امن کی پیشگی شرط کا مطلب یہ ہے کہ کبھی امن نہ ہو، کیونکہ فلسطینی ہمیشہ توقع کرتے رہیں گے کہ عرب دنیا کی مدد اور پشت پناہی سے وہ اسرائیل کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ لیکن اگر عرب دنیا سے ہمارے تعلقات قائم ہو جائیں گے تو فلسطینیوں کی امید دم توڑ جائے گی اور وہ بھی اسرائیل کے ساتھ پرامن طور پر رہنا قبول کر لیں گے۔

عمار ناصر