سوال (1506)

ایک بندہ باڑا بنوانا چاہتا ہے ، اب جو شخص باڑا بنوا رہا ہے ، وہ چاہتا ہے کہ چار لاکھ کیش میں بن جائے ، لیکن جس سے بنوا رہا ہے وہ چھ لاکھ بول رہا ہے ، رقم قسطوں میں ادا کی جائے گی تو کیا ایسا کرنا درست ہے ؟ اگر قسطوں میں رقم دینا درست ہے تو کن دلائل کی بنیاد پر جواب بتفصیل مطلوب ہے ؟

جواب

بیع التقسیط یعنی ایک چیز کو ادھار کی وجہ سے قیمت بڑھا کر خریدنا یا بیچنا یہ اکثر علماء کے ہاں جائز ہے ، اس کے دلائل معروف ہیں ، بیع سلف پر اس کا قیاس ہے یا بیع سلف میں سے ہی ہے ، یہ جائز ہے ، باقی الاقتصاد الاسلامی جامعہ ابی بکر کراچی کا ایک شعبہ ہے ، اس میں میری پچاس منٹ کی تقریر ہے ، مجلہ “البیان” میں ڈاکٹر یونس اثری حفظہ اللہ کا ایک مضمون چھپا تھا وہ بھی دیکھ لیں ، اس طرح اور بھی کتابیں ہیں ، شیخ ذوالفقار علی طاہر حفظہ اللہ جامعہ ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ والے کی کتابیں پڑھ لیں ، اس طرح مفتی اعظم فضیلۃ الشیخ عبد الستار حماد حفظہ اللہ نے فتاوی اصحاب الحدیث میں اس موضوع پر گفتگو کی ہوئی ہے ، باقی ہر چیز پہلے سے ہی طے ہونی چاہیے ، مدت اور طریقہ کار طے ہونا چاہیے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“مَنْ أَسْلَفَ فِي تَمْرٍ، فَلْيُسْلِفْ فِي كَيْلٍ مَعْلُومٍ، وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ، إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ”

“جو شخص کھجور کی پیشگی قیمت دینے کا معاملہ کرے اسے چاہیئے کہ معاملہ کرتے وقت پیمانہ وزن اور مدت سب کچھ معلوم و متعین کر لے” [سنن ابی داؤد : 3463]
اسی طرح بیع سلف کی طرح بیع التقسیط میں بھی وزن ، مدت اور قیمت معلوم ہونی چاہیے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ