سوال (716)

پندرہ شعبان کے بارے میں ضعیف روایات موجود ہیں ۔ اس حوالے سے علماء کرام کیا کہتے ہیں ؟

جواب

اس سوال کے جواب کے تحت پندرہ شعبان کے حوالے سے ایک مضمون ذکر کیا جاتا ہے ۔
شب برات ، حقیقت كے آئینے میں

الشیخ اکرم الٰہی حفظہ اللہ

اس میں کسی قسم کی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہیں ہے کہ ’’ شب ‘‘ عربی کا لفظ بالکل بھی نہیں ہے بلکہ یہ فارسی زبان کا لفظ ہے ،جبکہ دین اسلام کے تمام اصطلاحات عربی زبان سے ماخوذ ہیں ،جیسے نماز کے لئے الصلاۃ ،روزے کے لئے الصوم ، بیت اللہ کی زیارت کے لئے الحج والعمرہ ،مال ودولت کے مقررہ نصاب میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کو الزکوۃ ،اسی طرح قربانی کی خوشی کے لئے عید الأضحی اور رمضان کے روزوں کے اختتام پر خوشی کے لئے عید الفطر۔
براءت کی لغوی تحقیق
شب برات میں دوسرا لفظ ’’ برات ‘‘استعمال ہوا ہے ، یہ عربی کا لفظ ہے ، آیئے ہم اس لفظ کی تحقیق کرتے ہیں ۔یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ مذہبی اصطلاحات مکمل طورپرعربی میں استعمال ہوئی ہیں ، آدھی عربی اور آدھی کسی دوسری زبان میں کبھی استعمال نہیں ہوئی ہیں ۔یہاں لفظ برات کے معنی قرآن ،حدیث اور لغت عرب کی روشنی میں پیش کرتے ہیں تاکہ حقیقت کھل کرہمارے سامنے آئے ۔
امام راغب اصفہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

وأمّا البراءة فهي من باب (برأ) ، والأصل البُرْءِ والبَرَاءِ والتبرّي فهو التقصّي [أي التباعد] مما يكره مجاورته، ولذلك قيل: بَرَأْتُ من المرض وبَرِئْتُ من فلان وتَبَرَّأْتُ وأَبْرَأْتُهُ من كذا، وبَرَّأْتُهُ، ورجل بَرِي‏ءٌ، وقوم بُرَآء وبَرِيئُون ، البراءة من فلان التباعد والتخلي

البُرْءِ والبَرَاءِ والتبرّي کے اصل معنی کسی مکروہ امرسے نجات حاصل کرنےکے ہیں ۔ اس لئے کہا جاتا ہے ۔ برأت من المرض، میں بیماری سے تندرست ہوا ۔ برئت من فلان وتبرأت ،میں فلاں سے بیزار ہوں ۔أبرأته من کذا وبرأته، میں نے اس کو تہمت یا مرض سے بری کردیا ۔ رجل بریء، پاک اور بےگناہ آدمی ، اس کی جمع برآء و بریئوں ہے۔[المفردات في غريب القرآن ، الراغب الأصفهاني ص : 50. ولسان العرب ، إبن منظور – ج 1، ص :32]
مرض سے بری ہونے کا معنی ہے مرض سے نجات پانا، عہد سے بری ہونے کا معنی ہے عہد کو ختم کرنا یا فسخ کرنا، گناہ سے بری ہونے کا معنی ہے گناہ کو ترک کرنا، قرض سے بری ہونے کا معنی ہے قرض کو ساقط کرنا۔
لہذا معلوم ہوا كہ ’’شب‘‘ فارسی كا لفظ ہے ، جس كا معنی رات ہے ، جبكہ براءت عربی كا لفظ ہے اور اس كا معنی بیزاری، قطع تعلق، دوری اور نجات وغیره كے ہیں ۔لہذا شب براءت كا نام ہی اس كے غیرشرعی ہونے کی دلیل ہے ۔اس لئے كہ قرآن كریم مكمل عربی میں، تمام احادیث عربی میں،جكہ لفظ ’’شب‘‘ فارسی میں، لہذا لفظ’’شب‘‘ لفظ ’’ براءت‘‘ كے ساتھ مربوط ہوہی نہیں سکتا ،چنانچہ اسی باہمی ٹکراؤ کے باعث اس کا وجود قرآن وحدیث میں ہونا ناممکن ہے ۔
شب براءت کب وجود میں آیا؟
پانچویں صدی ہجری کی ابتداء تک حدیث وتفسیر کی جتنی بھی کتابیں لکھی گئیں اور اس سلسلے کی جتنی روایات کتابوں میں نقل کی گئیں ،ان میں کسی ایک روایت کے اندر لیلۃ البراءت کا لفظ قطعاً نہیں پایا جاتا۔ شب براءت کا یہ نام پانچویں صدی ہجری کے آخر میں وجود میں آیا اوریہ نام رکھنے والے صوفیاء ہیں۔[تذکرۃ الموضوعات ۔ علامہ محمد طاہر بن علی الصدیقی ، الفتنی ،متوفی ۹۸۶ ھ]
ماہ شعبان شریعت کے آئینے میں :
اس تہوار کا اصل تعلق بھی رجب کے کونڈوں کی طرح اہل تشیع سے ہے ،ان کی مشہور کتابوں کے مطابق پندرہویں شعبان کی شب جو ان کے ہاں شب براءت کے نام سے موسوم ومشہور ہے، بڑی مبارک رات ہے، اس شب کی بڑی فضیلت وعظمت کی وجہ یہ ہے کہ امام زماں ، امام غائب حضرت مہدی علیہ السلام کی ولادت باسعادت اسی شب کوہوئی ۔چنانچه شیعہ محدث علامہ کلینی ولادت امام مہدی کے حوالے سے لکھتے ہیں:

“ولد للنصف من شعبان سنة خمس وخمسین ومائتین”

«یعنی حضرت امام مہدی نصف شعبان کی رات بمطابق سنہ ۲۵۵ھ کو پیدا ہوئے» [أصول کافي، ج : ۱، ص: ۵۱۴ ، الطبعة الثانیة، ۱۳۶۲ ھ]
شیخ مفید اس حوالے سے کہتے ہیں:

“وکان مولده لیلة النصف من شعبان، سنة خمس و خمسین و مائتین” [الارشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، ج،۲، ص:۳۳۹، دار المفید للطباعة والنشر – بیروت ، ۱۴۱۴ – ۱۹۹۳ م]

«حضرت امام مہدی کی ولادت نصف شعبان سنہ ۲۵۵ھ کو ہوئی»
اسی لیے شیعہ حضرات اس رات کو اپنے امام کی پیدائش کی خوشی مناتے ہیں ،ان کا عقیدہ ہے کہ اسی رات ان کے بارہویں امام کا ظہور ہوگا ،اسی رات ان سے دعا بھی کرتے ہیں ،اور اس سے مدد کیلئے بھی پکارتے ہیں،ان کے کتابوں کے مطابق اس رات سنت طریقہ یہ ہے کہ اس رات میں یہ دعا پڑھی جائے جو بمنزلہ حضرت کی زیارت کے ہے ،اور اس دعا کے ذریعہ وہ تمام ظالموں پر لعنت فرماتے ہیں۔
لہذا شب براءت یعنی بیزاری والی رات کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے بلکہ ایک مخصوص گروہ کے عقائد اور اعمال کی ترجمانی ہے جس میں کم فہم سنی حضرات بھی شامل ہوگئے ہی ۔
براءت کا لفظ قرآن مجید میں :
قرآن مجید میں یہ لفظ بار بار استعمال ہوا ہے ،اب دیکھنا یہ ہے کہ جس لفظ کو ہم بڑے فخرسے بار بار ذکر کرتے ہیں اور جس سے ہمیں یہ امید ہے کہ آخرت کی زندگی میں ثواب کا ذخیرہ جمع ہوجائے گا ۔کیا یہ لفظ قابل ، فخر ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ جس لفظ کو ہم شب براءت میں اچھے معنوں میں استعمال کرتے ہیں وہ الٹے معنوں میں استعمال ہوں،لہذا قرآن پاک کی چند آیات پیش کرتے ہیں۔

بَرَاءَةٌ مِّنَ اللهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ [التوبة : 1]

اللہ اوراس کے رسول کی جانب سے بیزاری کا اعلان ہے ان مشرکوں کے بارے میں جن سے تم نے عہد پیمان کیا تھا۔

وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُإِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِّلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ [التوبة : 114]
قَالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنَا هَٰؤُلَاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنَاأَغْوَيْنَاهُمْ كَمَاغَوَيْنَا تَبَرَّأْنَا إِلَيْكَ مَا كَانُوا إِيَّانَا يَعْبُدُونَ [القصص : 60]

جن پر اللہ کے عذاب کا فرمان ثابت ہوچکا، وہ کہیں گے اے ہمارے رب! ایسے لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہ کیا تھا ہم نے انہیں اسی طرح گمراہ کیا تھا جس طرح خود ہم گمراہ ہوئے ہم آپ کے روبرو براءت کا اظہار کرتے ہیں یہ لوگ ہماری پوجانہیں کرتے تھے ۔

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ إِنَّنِي بَرَاءٌ مِّمَّا تَعْبُدُونَ [الزخرف : 26]

اورجب ابراہیم نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا بے شک میں ان چیزوں سے بالکل بری ہوں جن کی تم عبادت کرتے ہو۔
براءت کا لفظ حدیث شریف میں

“بَعَثَنِي أبو بَكْرٍ في تِلكَ الحَجَّةِ في مُؤَذِّنِينَ بَعَثَهُمْ يَومَ النَّحْرِ يُؤَذِّنُونَ بمِنًى: ألَّا يَحُجَّ بَعْدَ العَامِ مُشْرِكٌ، ولَا يَطُوفَ بالبَيْتِ عُرْيَانٌ. ثُمَّ أرْدَفَ رَسولُ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم بعَلِيِّ بنِ أبِي طَالِبٍ، وأَمَرَهُ أنْ يُؤَذِّنَ ببَرَاءَةَ، قالَ أبو هُرَيْرَةَ: فأذَّنَ معنَا عَلِيٌّ يَومَ النَّحْرِ في أهْلِ مِنًى ببَرَاءَةَ، وأَلَّا يَحُجَّ بَعْدَ العَامِ مُشْرِكٌ، ولَا يَطُوفَ بالبَيْتِ عُرْيَانٌ” [صحيح البخاري: 4655]

حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب وہ ا میر حجاج تھے اعلان کرنے والوں کے ساتھ بھیجا کہ یوم النحر کو اعلان کیا جائے کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے ،اور کوئی شخص ننگا ہوکر بیت اللہ کا طواف نہ کرے ۔ حمید بن عبدالرحمٰن نے کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق کے بعد رسول کریم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو روانہ کر دیا کہ کافروں سے بیزاری وبراءت کا اعلان کریں ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی ہمارے ساتھ یوم نحر کو کافروں سےبیزاری کا اعلان کیا اور یہ بھی کہا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور کوئی ننگا ہو کر بیت اللہ کا طواف نہ کرے۔
علامہ قرطبی كے نزدیك براءت كا معنی

“بَرَاءَة ” تَقُول : بَرِئْت مِنْ الشَّيْء أَبْرَأ بَرَاءَة، فَأَنَا مِنْهُ بَرِيء، إِذَا أَزَلْته عَنْ نَفْسك وَقَطَعْت سَبَب مَا بَيْنك وَبَيْنه” [تفسیر قرطبی ، سورة التوبة رقم الآیة: 1]

«براءت کے معنی کسی چیز کو دل سے نکال دینا اور باہمی رابطہ کو منقطع کرنا ہے»
قرآن کریم کی متعدد آیات ، احادیث،لغت عرب اور مذکورہ بالا مفسرکی اس وضاحت سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ جس رات ہم مذہبی تہوار کے طور پر بڑی عقیدت اور احترام کے ساتھ مناتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ دین کا حصہ ہے ، ہمیں اس سے اجر وثواب ملے گا ،بالکل غلط ہے ، اور اس بات سے پردہ کھل گیا کہ علماء کرام کی کم علمی کی وجہ سے اس رات کے جو فضائل بیان کرتے ہیں اس کا دین سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے ۔کیونکہ اس اٹل اور ابدی حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ دین کا تعلق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی رضا سے ہے ۔
پندرہ شعبان کی چند بدعات اور پندرہ شعبان کا روزہ :
پندرہ شعبان کے دن کو روزہ کےلیے خاص کرنا اس حوالے سے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

“فأما صوم یوم النصف مفرداً فلا أصل له بل إفرادہ مکروہ وکذلك اتخاذہ موسما تصنع فیه الأطعمة و تظہر فیه الزینة وهو من المواسم المحدثة المبتدعة التی لا أصل له [اقتضاءالصراط المستقیم،ص:302]

«البتہ صرف پندرہویں شعبان کا روزہ رکھنے کی روایت بے اصل ہے، بلکہ محض اس دن کا روزہ رکھنا مکروہ ہے۔ اسی طرح اس دن کو ایسے تہوار کے طور پر منانا کہ جس میں خاص کھانے تیار کیے جائیں اور زیب و زینت کا اظہار کیا جائے تو یہ ان بدعات میں سے ہے جن کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔
قبرستان جانا :
پندرہ شعبان کی رات کو عورتیں سج دھج کر اور خوشبو اور میک اپ کرکے بے پردگی کا مظاہرہ کرتی ہوئی چراغوں، اگر بتیوں اور مٹھائیوں کے ساتھ قبرستان جاتی ہیں ، اور پھول پتاشے کی نذر ونیاز چڑھاتی ہیں ۔ اور مُدوں سے اپنا دکھ درد سناتی ہیں ، اور ان سے اپنی مرادوں کی تکمیل کا مطالبہ کرتی ہیں جو شرعا ناجائزاور حرام ہے ۔ عورتوں کے لئے ویسے بھی قبرستان جانے کا حکم نہیں ہے، رسول كریم ﷺ كا ارشاد ہے كہ :

“أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى الله عليه وسلَّم لعَنَ زوَّاراتِ القبور” [أخرجه الترمذي : 1056، وابن ماجه : 1576، وأحمد : 8430. قال الترمذي: حسن صحيح]

«كہ نبی كریم ﷺ نے قبروں كی زیارت كرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے ۔ اور خاص کر موجودہ زمانے میں جو فتنوں کا دور ہے ، نیم برہنہ وبے پردگی کی حالت میں مردوں کے ساتھ اختلاط کرتے ہوئے قبرستان جانا کہاں کا دین اور کہاں کی سنت ہے»
پندرہ کی رات کو قبرستان جانے کا خاص اہتمام کرنا یہ کسی حدیث سے ثابت نہیں ،بلکہ حدیث میں زیارت قبور کے حوالے سے عمومی حکم یہ آیاہے کہ:

“قَد كُنتُ نَهَيتُكُم عَن زيارةِ القُبورِ ، فقَدْ أذنَ لِمُحمَّدٍ في زيارَةِ قبرِ أمِّهِ ، فَزوروها فإنَّها تذَكِّرُ الآخِرةَ” [صحيح الترمذي : 1054]

«رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا تھا۔ اب محمد ﷺ کو اپنی ماں کی قبر کی زیارتِ کی اجازت دے دی گئی ہے۔ تو تم بھی قبر کی زیارت كیا کرو، كیونكہ یہ چیز آخرت کو یاد دلاتی ہے»
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قبروں كی زیارت كسی بھی وقت ہوسکتی ہے اس كے لئے کسی دن یارات کو سنت سمجھ کرخاص کرنادرست نہیں ہے۔
پندرہ شعبان کی رات چراغاں کرنا :
یہ مجوسیوں کی ایجاد کردہ بدعت ہے جو آگ کو اپنا رب تصور کرتے ہیں،اس کو روشن کرکے اس کی پوجا کرتے ہیں ، اس قسم کی روشنی سب سے پہلے برامکہ کے زمانے میں ہوئی ، اس زمانے میں ہوئی ، اس زمانے میں شعبان کی پندرہویں رات کو ایک مبتدعانہ نماز (ہزاری نماز ) پڑھی جاتی تھی ، اور اس کے لئے نہایت اہتمام کیا جاتا تھا ، برامکہ پہلے مجوسی مذہب رکھتے تھے ، اور آگ مجوسیوں کا معبود ہے ، اس طرح انہوں نے قدیم محبت میں آگ کو روشنی اورچراغاں کی صورت میں اسلام کا ایک شعار قرار دے دیا [حجۃ اللہ البالغہ ، شاہ ولی اللہ]
شیخ ابن العربی فرماتے ہیں کہ ’’ مسجدوں میں خوشبو کی دھونی رکھنے کا رواج سب سے پہلے یحی بن خالد برمکی نے دیا جو خلیفہ وقت کا وزیر اور درباری تھا ، اور اس کا مقصد مجوسیت کا احیاء تھا ۔ [المنکرات ، ص: ۷۶]
پندرہ شعبان کو حلوہ پکانا :
نصف شعبان کی بدعتوں میں ایک بدعت یہ ہے کہ اس رات کو خوب حلوہ پکایا جاتا ہےاورعقیدہ یہ رکھتے ہیں کہ اس دن آپ ﷺ کے دندان مبارک شہید ہوئے تھے اور آپ ﷺ کو حلوہ کھلایا گیا تھا ، اس لئے اس خوشی میں حلوہ پکایا جاتا ہے ، یہ ایک من گھڑت اور خود ساختہ قصہ ہے جسے نہایت ہی فخر کے ساتھ بیان کیاجاتا ہے ، اور اگر بفرض محال تسلیم کر لیا جائے تو امر واقعہ اس کے خلاف ہے کیونکہ آپ ﷺ کے دندان مبارک غزوہ اُحد میں شہید ہوئے تھے اور یہ لوگ حلوہ شعبان میں کھا رہے ہیں ، اور بغیر دانت توڑے ہوئے کھاتے ہیں ، اسی طرح کھانا سامنے کے دانت کے بجائے داڑھ سے کھایا جاتا ہے جبکہ آپ کا دانت سامنے کا ٹوٹا ہوا تھا ، اگر یہ مان بھی لیں کہ آپ ﷺ نے حلوہ کھا یا ہی تھا تو اس بات کا ثبوت کہاں ملتا ہے کہ اس کو سنت جاریہ ہی بنا لیں اور ہر سال حلوہ پوری پکاکر خود کھائیں اور صرف دینے والے کو ہی کھلائیں ۔
روحوں کی آمد کا عقیدہ :
یہ عقیدہ رکھنا کہ اس رات خاندان کے مردہ بزرگوں کی روحیں گھروں میں تشریف لاتی ہیں ، اور راقت بھررہ کر صبح کے وقت عالم ارواح کی طرف واپس لوت جاتی ہیں اگر گھر میں حلوہ وغیرہ پاتی ہیں تو خوش ہوکر دعائیں دے کر واپس جاتی ہیں ، ورنہ مایوس ہوکر واپس چلی جاتی ہیں ، اس لئے ان روحوں کا استقبال کرنے کے لئے گھروں کو روشنیوں سے سجاتے ، اور سنوارتے ہیں ، اور ان مردہ بزرگوں کا پسندیدہ کھانا گھر کی ایک کوٹھری میں کسی کنارے رکھ دیا جاتا ہے اور ایسا ان روحون کو ایصال ثواب کے لئے کیا جاتا ہے ، تو یہ بھی مشرکانہ عقیدہ ہے ، جو ہندؤں اور سکھوں کے آوا گون اور تناسخ ارواح کے عقیدے مشابہ ہے ۔ جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ نیک لوگوں کی روحیں علیین میں اور برے لوگوں کی روحیں سجین میں رہتی ہیں ، وہاں سے واپس آنے کا تصور ہی نہیں ۔ یعنی مرنے کے بعد وہ ایسے عالم برزخ میں ہیں کہ وہ قیامت تک دنیا میں پلٹ کر نہیں آسکتے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔

حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ ۔ لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ [المؤمنون : 99/100]

یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے اے میرے پروردگار! مجھے واپس لوٹا دے۔ تاکہ جس دنیا کو میں چھوڑ آیا ہوں وہاں جاکر عمل صالح کروں، ہرگز نہیں، یہ محض ایک لفظ ہے جسے وہ کہہ رہا ہے (اسے دوبارہ بھی توفیق عمل نہیں ہوگی) اور وہ لوگ اپنی موت کے بعد قیامت کے دن تک عالم برزخ میں رہیں گے۔
روح ملانے کا ختم :
بعض مسلمانوں میں یہ غیر اسلامی عقیدہ بھی پایا جاتا ہے کہ جو شخص شب براءت سے پہلے مر جاتا ہے ، اس کی روح روحوں میں نہیں ملتی بلکہ آوارہ بھٹکتی رہتی ہے ، پھر جب شب براءت آتی ہے تو روح کو روحوں میں ملانے کا ختم دلایا جاتا ہے،عمدہ قسم کے کھانے ، میوے ، پھل وغیرہ مجلس میں رکھ کر امام مسجدختم پڑھتے ہیں ، اور روحوں کو روحوں میں ملا دیتے ہیں ،اور کھانے میوے ،پھل وغیرہ اور قیمتی کپڑے اٹھاکر گھر لے جاتے ہیں ، میت کے گھر والے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ ان کے مرنے والے رشتہ دار کی روح روحوں میں شامل ہوگئی۔
صلوۃ الفیہ (ہزاری نماز کا پڑھنا )
پندرہویں شعبان کی رات لوگ مسجدوں میں مغرب سے کچھ دیر قبل جمع ہونا شروع ہوجاتے ہیں ، ان میں فرائض کو اس نیت سے کہ اس رات کی عبادت ان کے گناہوں کو دھو دے گی ، چنانچہ باجماعت دو دو رکعت کرکے ۱۰۰ رکعات نفلی نماز پڑھتے ہیں جس کی ہر رکعت میں سورت قل ھو اللہ احد یعنی سورۃ الاخلاص دس مرتبہ پڑھا جاتا ہے ۔ اور ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے ۔ پھر اس کے بعد شب براءت کی مخصوص دعا مانگی جاتی ہے۔
امام ابن القیم رحمہ اللہ کا قول
امام ابن القیم رحمہ اللہ الصلوۃ الألفیہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’[ حیرت ہے کہ کوئی سنت کے علم کی خوشبو پاتا ہو اور پھر بھی اس قسم کی فضول باتوں سے دھوکہ کھائے اور اس نماز کو پڑھے ؟ یہ نماز اسلام میں چار سو سال کے بعد بیت المقدس کے علاقے میں ایجاد کی گئی اور پھر اس کے بارے میں بہت سی احادیث گھڑ لی گئیں ۔ [المنار المنیف ، ص: ۹۸ ]
صلوۃ الفیہ والی حدیث کے بارے میں محدثین نے موضوع ہونے کا حکم لگایا ہے ، جیساکہ ابن الجوزی نے تین طرق سے موضوع ثابت کیا ہے۔ اس نماز کی ابتدا ۴۴۸ ھ میں سب سے پہلے ابن ابی الحمراء کے ہاتھوں نابلس میں طے پائی ۔
لیلہ مبارکہ سے کیا مراد ہے ؟
قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ :

إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ [الدخان : 3]

یقیناً ہم نے اسے بابرکت رات میں اتارا ہے بیشک ہم ڈرانے والے ہیں۔
بابرکت رات سے مراد لیلۃ القدر ہے: جیسا کہ سورہ البقرہ میں ارشاد ہے:

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ [البقرۃ : 185]

رمضان کے مہینے میں قرآن نازل کیا گیا۔
سورہ القدر میں ارشاد فرمایا

اِنَّا اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْر [القدر : 1]

ہم نے یہ قرآن شب قدر میں نازل فرمایا۔
یہ رات (یعنی شب قدر) رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہوتی ہے۔ اس رات کو بابرکت رات قرار دیا گیا ہے اس کے بابرکت ہونے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے۔ کہ ایک تو اس میں قرآن نازل ہوا۔ دوسرے اس میں فرشتوں اور روح الامین کا نزول ہوتا ہے۔ تیسرے اس میں سارے سال میں ہونے والے واقعات کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ چوتھے اس رات کی عبادت ہزار مہینے (یعنی ۸۴ سال ۴ ماہ) کی عبادت سے بہتر ہے۔ لیلۃ مبارکہ میں قرآن کے نزول کا مطلب یہ ہے کہ اسی رات سے نبی ﷺ پر قرآن مجید کا نزول شروع ہوا۔ یعنی پہلے پہل اسی رات آپ پر قرآن نازل ہوا یا یہ مطلب ہےکہ لوح محفوظ سے اسی رات قرآن بیت العزت میں اُتارا گیا جو آسمان دنیا پر ہے۔ پھر وہاں سے حسب ضرورت و مصلحت تقریباً (۲۳) سالوں تک مختلف اوقات میں نبی ﷺ پر اترتا رہا۔ بعض لوگوں نے لیلۃ مبارکہ سے شعبان کی پندرھویں رات مراد لی ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ قرآن کی نص صریح سے قرآن کا نزول شب قدر میں ثابت ہے۔ تو اس سے شب برأت مراد لینا مناسب نہیں۔ علاوہ ازیں شب براءت (شعبان کی پندرھویں رات) کی بابت جتنی بھی روایات آتی ہیں
ایات آتی ہیں وہ سب روایات سنداً ضعیف ہیں اور ایسی احادیث سے نص قرآن کا معارضہ نہیں کیا جا سکتا۔
علامہ قرطبی رحمہ اللہ کا قول
اس آیت کی تفسیر میں علامہ قرطبی ابن العربی رحمہ اللہ کے کلام کو نقل کرکے فرماتے ہیں کہ انہوں نے کہا ’’ جمہور علماء اس بات پر متفق ہیں کہ اس رات سے مراد لیۃ القدر ہے ، اور جن لوگوں نے کہا کہ اس سے مراد پندرہویں شعبان کی رات ہے تو یہ قول باطل ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی محکم کتاب میں رمضان میں نزول کی تخصیص فرمائی ہے اور پھر اس زمانے کی تعیین لیلہ مبارکہ سے کی گئی ہے لہذا جو شخص یہ خیال کرے کہ رمضان کے علاوہ دوسری رات ہے تواس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا تہمت باندھا ، اور شعبان کی پندرہویں تاریخ کے بارے میں کوئی ایسی حدیث ثابت نہیں ہے جس پر اعتماد کیا جائے ، نہ اس رات کی فضیلت کے بارے میں کچھ صحیح حدیث سے ثابت ہے اور نہ ہی اس رات کوزندگی اور موت لکھے جانے کے بارے میں بھی کچھ وارد ہے ۔
علامہ شوکانی رحمہ اللہ کا قول
علامہ شوکانی رحمہ اللہ اپنی تفسیر فتح القدیر میں لکھتے ہیں کہ لیلۃ مبارکہ سے مراد شب قدر ہے ، اس سے مراد پندرہ شعبان کی رات نہیں کیونکہ سورہ دخان والی آیت میں اگرچہ اس رات کو مجمل ومبہم رکھا گیا ہے مگر سورہ بقرہ کی آیت میں اس رات کو واضح کر دیا ہے کہ یہ رات رمضان کے مہینہ میں ہوتی ہے ۔ لہذا لیلہ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر یعنی شب قدر ہے ، چنانچہ پندرہ شعبان کاروزہ اور رات کی عبادت کسی صحیح احادیث سے ثابت نہیں ۔ البتہ ماہ شعبان مین بکثرت روزے رکھنا سنت سے ثابت ہے ، لیکن کسی خاص دن کی تخصیص کرنا صحیح نہیں ہے ۔
نصف شعبان ،موت وحیات اور تقدیروں کے فیصلے ؟
قرآن اورحدیث سےایسا کچھ بھی ثابت نہیں بلکہ اللہ تعالی نے انسان کی پیدائش سےپہلےہی اسکی زندگی،موت تقدیروغیرہ کا فیصلہ لکھ دیا تھا۔

وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَن تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتَابًا مُّؤَجَّلًا وَمَن يُرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَن يُرِدْ ثَوَابَ الْآخِرَةِ نُؤْتِهِ مِنْهَا وَسَنَجْزِي الشَّاكِرِينَ [آل عمران : 145]

کوئی شخص اللہ کے اذن کے بغیر کبھی نہیں مرسکتا۔موت کا وقت متعین ہے۔ جو شخص دنیا میں ہی بدلہ کی نیت سے کام کرے گا تو اسے ہم دنیا میں ہی بدلہ دے دیتے ہیں اور جو آخرت کا بدلہ چاہتا ہو اسے ہم آخرت میں بدلہ دیں گے اور شکرگزاروں کو عنقریب ہم جزا دیں گے ۔
اور رسول كریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

كَتَبَ اللَّهُ مَقَادِيرَ الخَلَائِقِ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَوَاتِ وَالأرْضَ بِخَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، قالَ: وَعَرْشُهُ علَى المَاءِ. وفي روايةٍ : بِهذا الإسْنَادِ مِثْلَهُ، غيرَ أنَّهُما لَمْ يَذْكُرَا: وَعَرْشُهُ علَى المَاءِ [صحیح مسلم : 2653]

اللہ تعالی نےزمین اور آسمان کی پیدائش سے50 ہزار سال پہلےہی سب کی تقدیریں لکھ دی تھیں اور الله كا عرش پانی پر تھا ۔
دین اسلام مکمل ہے
اسلام ایک مکمل دین ہے، اس میں ذرہ برابر بھی کمی وبیشی کی گنجائش نہیں ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے :

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا [المائدۃ : 3]

آج کے دن میں نے تمہارا دین تمہارے لیے مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے بحیثیت دین، اسلام کو پسند کیا ہے۔
نیز اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :

أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّهُ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۗ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيم [الشوریٰ : 21]

یا ان کے لیے کچھ ایسے شریک ہیں جنھوں نے ان کے لیے دین کا وہ طریقہ مقرر کیا ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی اور اگر فیصلہ شدہ بات نہ ہوتی تو ضروران کے درمیان فیصلہ کردیا جاتا اور بے شک جو ظالم ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَن عَمِلَ عَمَلًا ليسَ عليه أمْرُنا فَهو رَدٌّ [صحیح مسلم : 1718]

یعنی جس نے کار خیرسمجھ کر کوئی عمل کیا اوراس عمل کامیں نے حکم نہیں دیا تو وہ عمل مردود ہے ،،.
اسی طرح ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

مَن أَحْدَثَ في أَمْرِنَا هذا ما ليسَ فِيهِ، فَهو رَدٌّ
[صحیح البخاری : 2697]

جس نے ہمارے دین میں از خود کوئی ایسی چیز نکالی جو اس میں نہیں تھی تو وہ رد ہے۔
ایک مسلمان کے لئے نبی اکرم ﷺاور خلفاء راشدین کی اتباع ہی کافی ہے ،آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

أوصيكم بتقوى اللهِ والسمعِ والطاعةِ وإن عبدًا حبشيًّا، فإنه من يعِشْ منكم بعدي فسيرى اختلافًا كثيرًا، فعليكم بسنتي وسنةِ الخلفاءِ المهديّين الراشدين تمسّكوا بها، وعَضّوا عليها بالنواجذِ، وإياكم ومحدثاتِ الأمورِ فإنَّ كلَّ محدثةٍ بدعةٌ، وكلَّ بدعةٍ ضلالةٌ
[صحیح ابی داؤد : 4]

آپ ﷺ نے فرمایا: میں تمہیں اللہ سے ڈرنے، امیر کی بات سننے اور اس کی اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں، خواہ وہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ جو میرے بعد تم میں سے زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا، تو تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقہ کارکولازم پکڑنا، تم اس سے چمٹ جانا، اوراسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا،اوردین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے، اورہربدعت گمراہی ہے۔
اس معنی کی بیشمار آیات واحادیث ہیں جو صریح طور پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالی نے اس امت محمدیہ پراپنے دین کی تکمیل فرمادی ہے .اللہ کے مشروع کردہ جملہ اقوال وافعال کو امت کے سامنے بیان کرنے کے بعد ہی آپ ﷺ کی وفات ہوئی ، اب آپ ﷺ کے بعد جو بھی قول وعمل ایجاد کر کے دین کی طرف منسوب کیا جائے گا وہ بد عت ہوگا اورہربدعت بدعتی کے منہ پر دے ماری جائیگی۔ اللہ تعالی ہم سب کو تمام بدعات وخرافات سے محفوظ رکھے ،آمین۔