سوال (63)
پانی پر دم کر کے پھونکنا شرعی نکتہ نظر سے کیسا عمل ہے ؟
جواب
مصنف ابن ابی شیبہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پانی پر دم کرنا صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے ۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ۔
“أَنَّهَا كَانَتْ لا تَرَى بَأْسًا أَنْ يُعَوَّذَ فِي الْمَاءِ ثُمَّ يُصَبَّ عَلَى الْمَرِيضِ”.
[مصنف ابن أبي شيبة كِتَابُ الطِّبِّ : 22895]
’’ان کے ہاں اس میں کوئی حرج نہیں کہ پانی میں دم کیا جائے پھر اسے مریض پر بہایا جائے‘‘ ۔
اسی طرح بعض آثار سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما ، امام مجاھد اور امام عکرمہ سے بھی ملتے ہیں ۔
اس سے معلوم ہوا ہے کہ پانی پر دم کرنے کا جواز ہے ۔
پھونک کی تین قسمیں ہیں: 1:نفخ 1 2:نفس 3:نفث
ان میں نفث تھتکارنے کے معنی میں ہے یہ جائز ہے اور یہ دم کی ایک شکل ہے ، اگر کوئی عقیدہ یہ رکھے کہ حضرت کی تھوک میں برکت ہے پھر وہ شرک ہو جائے گا ۔ جو طریقہ کار سلف سے منقول ہے ، اس طریقے کو اپنائے تو پھر ٹھیک ہے ۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ