ایک طرف لہو لہو اہل فلسطین، زخموں سے چور، درد کی تصویر، ماں باپ کے سائے سے محروم ننھے، وحشت زدہ نیم مردہ بچے، مامتا کے غم میں نیم پاگل مائیں، اپنے کی میتوں کو ٹٹولتے، معصوم بچوں کی لاشوں کا شاپروں میں قیمہ لیے پھرتے غم سے پاگل باپ، بموں سے چھلنی جسم، میزائلوں اور فاسفورس بموں سے سوختہ لاشے، تباہ شدہ گھروں کے ویرانوں میں پھٹی آنکھوں سے گریہ کرتے اور لاشوں کو دفنا دفنا کر تھک چکے مقہور ومظلوم لوگ ہیں۔ جن کے مظالم اور دکھوں کی حقیقی منظر کشی کے لیے انسانی دل اور ڈکشنریوں کے الفاظ میسر نہیں ہیں۔ ماتم کناں عقل، زخمی، خون روتا دل ان الفاظ کا سہارا لینے پر مجبور ہے:
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
اسرائیلی درندگی اور قتل عام دیکھ کر پتھر دل لوگ پگھل جائیں, ایسی حشرسامانیوں کا واسطہ پہاڑوں سے پڑے تو پہاڑ ٹوٹ جائیں ، دن اپنی چمک کھو بیٹھیں ، دریا راستہ بدل لیں یا خشک ہو جائیں ، ایسے دلدوز مناظر دیکھ کر یورپ کے اسلام دشمن گورے، غیر متعصب ہندو حتی کہ یہودی کمیونٹی کے اپنے کئی لوگ اس بربریت پر نوحہ واحتجاج کناں ہیں۔
ظلم و سربیت کے ایسے کرب ناک لمحات میں 57 ممالک کے حکمرانوں ہی پر نہیں بلکہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے لیے رب تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم ہے کہ اپنی ریاستیں ، سیاستیں چھوڑیں، بے حمیتی کے کسں کر باندھے نقاب اتاریں، وہن کی بیماری کا طوق اتاریں اور غلامی کی زنجیریں توڑ کر اہل فلسطین کی جنگ میں شریک ہوں، اللہ تعالیٰ بے غیرتی کے خمیر میں بندھے عام و خاص سبھی مسلمانوں کو ان الفاظ سے جھنجوڑتے ہیں”

وَمَا لَـكُمۡ لَا تُقَاتِلُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَالۡمُسۡتَضۡعَفِيۡنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ وَالۡوِلۡدَانِ الَّذِيۡنَ يَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَخۡرِجۡنَا مِنۡ هٰذِهِ الۡـقَرۡيَةِ الظَّالِمِ اَهۡلُهَا‌ ۚ وَاجۡعَلْ لَّـنَا مِنۡ لَّدُنۡكَ وَلِيًّا ۙۚ وَّاجۡعَلْ لَّـنَا مِنۡ لَّدُنۡكَ نَصِيۡرًا ۞ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا يُقَاتِلُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ‌‌ ۚ وَالَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا يُقَاتِلُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ الطَّاغُوۡتِ فَقَاتِلُوۡۤا اَوۡلِيَآءَ الشَّيۡطٰنِ‌ۚ اِنَّ كَيۡدَ الشَّيۡطٰنِ كَانَ ضَعِيۡفًا ۞

اور تمہیں کیا ہے کہ تم اللہ کے راستے میں اور ان بےبس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہمیں اس بستی سے نکال لے جس کے رہنے والے ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی حمایتی بنا دے اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی مددگار بنا۔ وہ لوگ جو ایمان لائے وہ اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا وہ باطل معبود کے راستے میں لڑتے ہیں۔ پس تم شیطان کے دوستوں سے لڑو، بیشک شیطان کی چال ہمیشہ نہایت کمزور رہی ہے۔ ( النساء: 75, 76)
یہ خطاب سبھی مسلمانوں کو ہے، حکمران، عربوں، شیعہ، سنیوں پر ذمہ داری ڈال کر جان نہیں چھڑائی جا سکتی ، فلسطین کو بے یار و مددگار چھوڑنے کے گناہ میں من حیث امت سبھی برابر مجرم اور گناہ کے مرتکب ہیں، یہاں بائیس لاکھ جلتے سسکتے، کرلاتے اور امت کو مدد کے لیے دہائی دیتے فلسطینی لوگ ہیں، اس جہنم زار بستی میں مائیں بچوں سے پوچھتیں ٹی وی آن کر کے دیکھو کتنے اسلامی ممالک نے فلسطین کی حمایت کا اعلان کیا ہے، حماس کے لیڈر اسماعیل ہانیہ جس کے اپنے اوپر قیامت گزر چکی، خالد مشعل سمیت تمام لیڈر شپ ساری اسلامی دنیا سے بالعموم اور پاکستان کے لوگوں سے بالخصوص مدد کی بھرپور اپیل کر رہی ہے اور یہ خطرہ ظاہر کر رہیں مسلمانوں کی بے حسی کی وجہ سے اسرائیل خونخوار غزہ کے زندہ مکینوں کا غزہ قبرستان ہی نہ بنا دے۔
ٹھیک بارود کی بارش، میزائلوں کی برسات ، ٹینکوں توپوں کے دہانوں سے قہر ڈھاتے گولے اور آسمان سے سے کارپٹ بمباری کرتے جنگی طیارے اہل فلسطین کو خاک وخون میں نہلا رہے تھے، ہر لمحہ ان پر قیامت گزر رہی تھی ٹھیک ایسے جھنم زار لمحات میں ابلیس کے فرزند اہل سیاست کو اوچھی ترکیب سوجھی، بے حمیتی کی کوکھ میں پلے حرام درندوں ، ملک خداداد کی ہڈیوں تک بھنبھوڑ کھانے والے بھیڑیے نے شیر اک واری فیر کے نعرے سے اہل فلسطین کے زخموں پر نمک پاشی کی اور غم کی ماری اس قوم کو مایوسیوں کے اندھیرے میں دھکا دے ڈالا، انھیں یہ شٹ اپ کال دی گئی کہ ہم اپنے عہدے پر مر مٹنے والے اس قسم کے بے ضمیر لوگ ہیں: تجھے پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو” اور ان دکھ سہتے لوگوں کا یہ تاثر مزید گہرا کر دیا:
عجب رسم ہے چارہ گروں کی محفل میں
لگا کر زخم نمک سے مساج کرتے ہیں
آہ! اہل حل وعقد سرکس کے اس شیر کی انٹری کا کوئی اور وقت دیکھ لیتے، پاکستانی عدالتیں انصاف کے خون کے لیے کوئی اور موقع تاک لیتیں، حکومتی ادارے اس خونی چڑیل کا کسی اور وقت میں سیندور بھر لیتا، اس لکشمی کا سواگت کچھ مؤخر کر لیتے ، ڈول کی تھاپ پر رقص، موسیقی کی دھنوں کا شور، پاور شو کا ڈرامہ، عورتوں کی نمائش، بے ضمیر ، بے حمیت ٹولوں کے اجتماع کا بھونڈا تماشا کسی اور لمحے لگا لیتے، سرکس کے شیروں، شیرنیوں ، لومڑوں، لومڑیوں ، تیس سال سے ملک کی خدمت پر مامور انسانوں کا گوشت نوچنے والے گدھوں کے ابلیسی کرتب، شیطانی مکاریاں دکھانے میں تاخیر کی جا سکتی تھی۔
سفاکیت، بربریت اور بے حسی و بے حمیتی کے ایسے عالم میں ایسا غیرت ایمانی، اخوت اسلامی سے خالی ملک، ایسے قبرستان نما شہروں ، انسان نما درندوں ، مذہب کو بیچ کر سینٹ اور قومی سیٹوں کی سودے بازی کرتے مذہبی ساہو کاروں کے ساتھ رہنے سے ڈر لگتا ہے اور خوف ہلکان رکھتا ہے کہ اسرائیلی درندے کے لیے عالم اسلام کی بد دعائیں کرتے مسلمانوں کی بددعاؤں کا رخ اپنی طرف نہ ہو جائے اور ابابیل ادھر کنکر گرانا شروع نہ کر دیں، اس بات کا دھڑکا لگا رہتا ہے کہ ایسی سفاکیت اور خون کے سفید رنگ ہونے پر پرندے کیوں نہیں آتے، کنکر کیوں نہیں گراتے۔
یہاں مذہب کے ٹھیکے داروں سے شکایت نہیں ان سے سخت تکلیف ہے کہ تمھیں تو کتاب وسنت کا علمبردار ہوتے ہوئے اس جمہوری تماشے کا بائیکاٹ کرنا چاہیے تھا۔ ایسا اجتماع اردن، لبنان، مصر اور شام کے بارڈروں پر کرناچاہیے تھا، اسرائیل پر پریشر ڈالنا چاہیے تھا۔ مگر اس خاموشی نے تو اس درندے کو مزید شہہ بخشی۔

فاروق رفیع