سوال (2803)
پارلر کا کام کرنا کیسا ہے؟ کیا اگر ہم کسی کو تیار کریں اس کے بعد وہ بے پردہ ہو کر گھومے تو کیا اس کا گناہ بھی ہمارے اوپر ہوگا، نیز یہ بھی بتادیں کہ اگر کوئی لڑکی آبرو وغیرہ بنانے کی ذمے داری لے لیتی ہے تو کیا اس کا گناہ بھی ہمارے اوپر ہوگا؟
جواب
ارشاد باری تعالی ہے۔
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖوَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ [المائدہ: 2]
«اور نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ بہت سخت سزا دینے والا ہے»
باقی آپ کا یہ کہنا ہے ہمیں معلوم نہیں ہوتا ہے کہ آنے والی خاتون تیار ہوکر پردہ کرے گی یا نہیں کرے گی، یہ بات حلق سے نہیں اترتی ہے، کیونکہ آپ لوگوں کو خوب معلوم ہوتا ہے کہ آنے والی عورت کس انداز کی ہے، ننانوے فیصد جو عورتیں بیوٹی پارلر سے تیار ہوتی ہیں، وہ بے پردہ ہوتی ہیں، تو آپ ایک گناہ کے اندر براہ راست شامل ہو رہی ہیں، اور گناہ کا ذریعہ بن رہی ہیں۔
فضیلۃ الشیخ عبدالرزاق زاہد حفظہ اللہ
خواتین کے لیے زیب و زینت شوہر کے لیے مطلوب ہے، یہ ممدوح بھی ہے، یہ عورت بناؤ سنگھار کے بغیر رہ بھی نہیں سکتی ہے، باقی اس کا یہ زیب و زینت صرف محرم اور خواتین کے مابین ہو، یہ جائز چیزوں کے ساتھ جائز ہے، لہذا بیوٹی پارلر بھی کسی حد تک جائز ہے، البتہ اس میں خرافات ہیں، جو کہ ناجائز ہیں، غیر مسلموں کی نقالی ہے، اس میں کریم اور لوشن ایسے بھی ہیں جو حرام چیزوں سے بنائی جاتے ہیں، ان کی اصلاح کی ضرورت ہے، اس طرح جو خلاف شرع طور طریقے ہیں، ان سے اجتناب کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے، جیسے نقلی پلکیں، نقلی بال وغیرہ۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل:
بارك الله فيكم وعافاكم
شیخ صاحب کوئی ایسا بیوٹی پارلر ہمارے علم میں نہیں ہے، جہاں شرعی حدود و قیود کے دائرہ میں رہ کر کام کیا جاتا ہو۔
جواب:
بات یہ ہے کہ اگر صحیح پیمانے سے تولیں گے تو کوئی کمپنی، آفیس اور دکان حتی کہ بہت سے نام نہاد دین کے دعویدار ادارے میں محل نظر ہو جائیں گے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
جیسے بہت سی غیر شرعی صورتیں اور کاروبار ہو رہے ہیں، اس سے کہیں زیادہ ضرورت ہے، شرعی حکم واضح کرنے کی اور اس کی جائز اور ناجائز صورتیں بیان کرنے اور آکے ذریعہ آمدنی کے حکم کی، جس کاروبار کی بنیاد غیر شرعی ہے، اس کا حکم واضح ہے، اور جس کاروبار میں جائز اور ناجائز صورتیں موجود ہیں، وہ حلال کمائی کو بھی حرام بنا دیتی ہے۔
بیوٹی پارلر سے جب تک غیر شرعی صورتیں ختم نہیں کر دی جاتیں تب تک اس کا چلانا اور اس سے آنے والی آمدنی حلال و طیب نہیں ہے، ہر بندہ مسلم کو اس آیت کے مطابق جینا چاہیے ہے۔
“فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا”
سو الله تعالى سے ڈرو جتنی طاقت رکھو اور سنو اور حکم مانو
[التغابن : 16]
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ