سوال (5482)

کیا فرماتے ہیں علماء دین تین بندے پارٹنرز ہوتے ہیں، کاروبار میں اگر وہ کاروبار سے دو پارٹنر الگ ہوتے ہیں نفع، نقصان، اور ادھار کا کون ذمہ دار ہے ادھار کی وصولی اور اس کے بعد ادھار نہیں وصول ہوتا تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟

جواب

یہ تینوں پارٹنر دیکھ لیں کہ انہوں نے شروع میں کیا طے کیا تھا، بوجھ کس پر ڈالا جائے گا، کس نے قبول کیا ہے، عام طور پر نفعے اور نقصان میں سارے برابر ہوتے ہیں، وہ دیکھا جائے گا، کسی ایک کو الزام نہیں دیا جا سکتا ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

الحمدللہ، جب تین افراد مل کر کاروبار کریں اور شراکت کا معاہدہ ہو، خواہ وہ معاہدہ زبانی ہو یا تحریری، تو کاروبار میں شریک تینوں افراد نفع نقصان میں اپنی اپنی شراکت کے حساب سے ذمہ دار ہوں گے۔ اگر معاہدے میں کوئی خاص شرط رکھی گئی ہو، مثال کے طور پر فلاں شخص صرف سرمایہ لگائے گا، فلاں شخص محنت کرے گا، تو ایسی کوئی بھی شرط معتبر ہوگی، اور شریعتاً اس میں کوئی مزائقہ نہیں ہوگا۔ شرط یہ ہے کہ ان تینوں کو اپنی شراکت سے پہلے نفع نقصان کے حوالے سے کچھ قواعد اور ضوابط وضع کرنا لازمی ہے۔

اب اگر دو شریک الگ ہو جائیں کاروبار سے، اپنے حصے کا سرمایہ یا نفع وصول کر لیتے ہیں، اور ایک شخص کاروبار جاری رکھنے کے لیے اس کو چھوڑ دیا جاتا ہے، تو جب تک علیحدگی نہیں ہوئی تھی، علیحدگی سے پہلے اور بعد کے معاملات میں فرق ہوگا۔ علیحدگی کے بعد تو نفع نقصان کی ذمہ داری اسی شریک پر ہوگی جو اس کو جاری رکھے ہوئے ہے، اور الگ ہونے والے جو ہیں، وہ کاروبار کے نفع نقصان میں شریک نہیں ہوں گے۔

لیکن اس شراکت داری سے علیحدگی اختیار کرنے سے پہلے جو کاروباری قرض تھا، ادھار تھا، اخراجات تھے یا جو کچھ بھی تھا، وہ ان تینوں میں اسی فارمولے کے تحت تقسیم ہوگا جو فارمولا ان لوگوں نے آپس میں طے کیا تھا، کیونکہ ان اخراجات کا، اس نفع نقصان کا، یا جو بھی ہے، اس کا تعلق اس وقت سے ہے جب یہ تینوں آپس میں ایک ساتھ تھے۔

اب اگر ان تینوں میں، مثال کے طور پر، لین دین کے حوالے سے کسی گاہک سے ادھار کی وصولی نہ ہو، یعنی مال دیا جا چکا اور گاہک / کسٹمر پیمنٹ نہیں کر رہا، تو یہ نقصان کاروبار کے نفع نقصان کے حساب سے شمار کیا جائے گا، اور وہ تینوں اپنے اپنے حصے کے مطابق اس نقصان میں شریک ہوں گے۔ البتہ بعد میں کسی بھی وقت اگر یہ رقم وصول ہو جائے، تو جتنا ہر شریک کا حق بنتا تھا، اسی حساب سے یہ تینوں میں تقسیم ہو جائے گی۔”

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ