سوال (4079)
شیخ محترم جو مانگنے کے لیے دروازے پر آتا ہے، اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اکثر کہا جاتا ہے کہ جو بھی مانگنے کے لیے دروازے پہ آئے تو اس کو دے دیا کریں۔
جواب
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
“اِنَّ اللّٰهَ يَاۡمُرُكُمۡ اَنۡ تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَهۡلِهَا ۙ وَاِذَا حَكَمۡتُمۡ بَيۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحۡكُمُوۡا بِالۡعَدۡلِؕ اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمۡ بِهؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِيۡعًۢا بَصِيۡرًا” [النساء : 58]
“بے شک اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حق داروں کو ادا کرو”
پیشہ ور بھکاریوں کو کچھ بھی نہیں دینا چاہیے، میں یہ بات اس لیے کہہ رہا ہوں کہ یہ ایک مکمل پیشہ ہے، ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ان کی تعداد تین کروڑ اسی لاکھ ہے، یہ تین کروڑ اسی لاکھ ہمارے جیبوں سے اکتیس ارب روپیہ نکالتے ہیں، آپ حساب و کتاب کرلیں، یہ آمدن کسی بھی شعبے سے بڑھ کر ہے، دوسرا المیہ یہ ہے کہ اس تین کروڑ اسی لاکھ آبادی میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے، اس پر محنت اور کوئی حکومتی ٹیکس بھی نہیں ہے، ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ان کے پاس وزیروں سے بھی زیادہ پیسا ہے، ان کو شام کے ٹائیم پر اٹھانے کے لیے بھی بڑی بڑی گاڑیاں آتی ہے، یہ بڑی ہوٹلوں پر کھانے کھاتے ہیں، اس لیے ان کو کبھی نہیں دینا چاہیے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ