سوال
شیخ صاحب وراثت کے بارے میں ایک سوال ہے، ہماری پھوپھی کا کل بروز جمعہ مورخہ 11جولائی 2025 کو قضائے الہی سے انتقال ہو گیا ہے، ہماری پھوپھی کی نہ کوئی اولاد ہے اور نہ والدین حیات ہیں۔ صرف ایک بہن حیات ہے باقی سب بہن بھائیوں کا انتقال ہو گیا ہے ۔جو بہن حیات ہیں ان کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔
مرحومہ کے پانچ بھائی اور تین بہنوں کا انتقال ہو چکا ہے، ایک بھائی کے پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، دوسرے بھائی کے چھے بیٹے اور ایک بیٹی ہے، تیسرے بھائی کے دو بیٹے اور چار بیٹیاں، چوتھے بھائی کی کوئی اولاد نہیں، پانچویں بھائی کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔
پہلی بہن کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، دوسری بہن کا ایک بیٹا ہے، تیسری بہن کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔
اور مرحومہ نے مرنے سے پہلے گھر والوں کے سامنے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میرے مرنے کے بعد میری وراثت میں سے میرے تمام بھتیجوں، بھتیجیوں، بھانجے اور بھانجیوں کو بھی کچھ نہ کچھ دیا جائے، یعنی ایک طرح سے انہوں نے یہ وصیت کی ہے، اب کیا یہ وصیت نافذ ہوگی؟ اور اس نے چونکہ وصیت کا تعین نہیں کیا تھا، تو شریعت کی رو سے کتنے مال کے وصیت کی جاسکتی ہے؟
اسی طرح اس بات کی وضاحت بھی فرمادیں کہ جس بہن کو وراثت میں سے حصہ مل رہا ہے کیا اسکے بچے بھی اس وصیت میں شامل ہونگے اور کیا وصیت بھی “للذکر مثل حظ الانثیین” کے اصول کے تحت ہی نافذ ہوگی۔
براہِ کرم اس مسئلے میں رہنمائی فرمادیں۔
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
اس کے ترکے میں سے اس کی تجہیز و تکفین، قرضوں کی ادائیگی اور ایک تہائی مال وصیت نافذ کرنے کے بعد پھر اس کے ورثاء کوحصہ ملے گا۔ اور ورثاء میں اگر اولاد یا والدین نہ ہوں بس ایک ہی عورت جیسے بیٹی، بہن یا پوتی ہو تو اس کو نصف ملتا ہے۔ چونکہ مذکورہ صورت میں بھی میت کی اولاد ہے نہ والدین، اسکی وفات کے وقت صرف ایک ہی بہن زندہ ہے، اس صورت میں بہن کو اسکی جائیداد کا نصف ملے گا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
“اِنِ امۡرُؤٌا هَلَكَ لَـيۡسَ لَه وَلَدٌ وَّلَه اُخۡتٌ فَلَهَا نِصۡفُ مَا تَرَكَ”. [النساء:176]
’’اگر کوئی آدمی (یا عورت) مر جائے، جس کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو تو اس کے لیے اس کا نصف ہے‘‘۔
اور باقی مال بطور قریبی مرد عصبہ اس عورت کے بھتیجوں کو ملے گا، تمام بھتیجوں کو ملے گا چاہے وہ جس بھائی سے بھی ہیں، البتہ اس صورت میں اسکی وراثت میں سے اسکی بھتیجیوں اور بہنوں کے بیٹے بیٹیوں کو کچھ نہیں ملے گا، صرف قریبی مرد عصبہ (بھتیجوں) کو ہی ملے گا۔
وصیت کا نفاذ اور تقسیم:
جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ مرنے والے کی طرف سے کی جانے والی وصیت کو وراثت کی تقسیم سے قبل نافذ کرنا ضروری ہے، اس لیے اس عورت کی وصیت بھی نافذ ہوگی، اسکی وراثت کے کل مال کے ایک تہائی سے اس وصیت کو پورا کیا جائے گا، لیکن اسکے بھتیجے چونکہ اس کی وراثت کے حقدار ہیں، اس لیے انکو وصیت میں سے کچھ نہیں ملے گا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ فَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ”. [سنن أبی داؤد: 2870]
’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے، پس وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں“۔
اور وصیت صرف ایک تہائی مال تک جائز ہے، اگر کوئی اس سے زیادہ کی وصیت بھی کرجائے، تو بھی ثلث (ایک تہائی) ہی نافذ ہوگی۔
جیسا کہ سیدنا سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا:
“أُرِيدُ أَنْ أُوصِيَ وَإِنَّمَا لِي ابْنَةٌ، قُلْتُ: أُوصِي بِالنِّصْفِ ، قَالَ: النِّصْفُ كَثِيرٌ، قُلْتُ: فَالثُّلُثِ، قَالَ: الثُّلُثُ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ أَوْ كَبِيرٌ، قَالَ: فَأَوْصَى النَّاسُ بِالثُّلُثِ، وَجَازَ ذَلِكَ لَهُمْ”. [صحیح البخاری: 2744]
’’میرا ارادہ وصیت کرنے کا ہے۔ ایک لڑکی کے سوا میری کوئی اور (اولاد) نہیں۔ میں نے پوچھا کیا آدھے مال کی وصیت کر دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: آدھا تو بہت ہے۔ پھر میں نے پوچھا تو تہائی کی کر دوں؟ آپ نے فرمایا: تہائی کی کر سکتے ہو اگرچہ یہ بھی بہت ہے یا (یہ فرمایا کہ) بڑی (رقم) ہے ‘‘۔
لہذا اس عورت کی وراثت میں سے ایک تہائی وصیت نکال کر باقی جائیداد میں سے نصف اسکی بہن کو ملے گا اور باقی نصف اسکے تمام بھتیجوں میں تقسیم ہوجائے گا اور وصیت میں سوائے اسکے بھتیجوں کے اگر اس نے کسی قسم کی تفریق نہیں کی تو جس بہن کو وراثت میں حصہ مل رہا ہے اسکے بیٹے بیٹیوں سمیت باقی بہنوں کے بیٹے بیٹیاں اور بھائیوں کی بیٹیاں سب شامل ہیں۔
اور “للذکر مثل حظ الانثیین” کا اصول وراثت سے متعلق ہے، اس لیے وصیت میں سے مرد و عورت سب کو برابر برابر حصہ ملے گا۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ