سوال (2005)

ایک شخص نے دوران ڈکیتی کسی کو قتل کر دیا ہے، اب یہ ڈکیت پولیس کے ہاتھ لگ گیا تو پولیس نے دوران حراست اسے بھی قتل کر دیا ہے، کیا یہ قتل کا بدلہ قتل ہو گیا ہے اور قیامت کے دن ڈکیت قاتل کا معاملہ کیا ہوگا؟

جواب

یہ جو قانونی معاملات ہوتے ہیں، یہ بہت سنجیدہ نوعیت کے ہوتے ہیں، ہمارے اساتذہ کرام جو زندہ ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو دین و ایمان والی لمبی عمریں عطا فرمائے، جو رحلت کر چکے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی قبروں کو جگمگاتے رکھے، وہ فرمایا کرتے تھے کہ تین معاملات میں کبھی بھی جلدبازی سے کام نہیں لینا ہے، قتل، طلاق اور وراثت ان میں کبھی بھی جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے۔
اس سوال کے ایک سے زیادہ پہلو ہیں ۔
پہلی بات یہ ہے کہ جو ڈکیٹ قتل ہوا تھا، اس کا محض جرم قتل نہیں تھا، اس نے دوران ڈکیٹی قتل کیا ہے، دو جرم ہوگئے ہیں، لہذا بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ بندہ حدود والی سزا کا حقدار نہیں تھا، اس کو تعزیرا سزا ملتی، حد تب لگتی جب اس نے صرف قتل کیا ہوتا۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ کیا پولیس کسی کو قتل کرنے کا اختیار رکھتی ہے، یقینا نہیں، پولیس کا کام صرف و صرف ملزم کو گرفتار کرنا ہے، سزا دینے کا اختیار اس کے پاس نہیں ہے، اگر پولیس نے ایسا کیا ہے، یہ پولیس کا جرم ہے، لہذا اس پولیس اور ڈکیٹ کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ

شیخ صاحب اس میں قتل کرنے والےکی نیت بھی دیکھنی ہوگی کہ اس نے اپنے دفاع میں بس بچنے کے لیے حملہ کیا یا اس کا ارادہ قتل کرنے کا تھا، اب وہ تو خود مر چکا تو قرائن سے معلوم کریں گے یا سکوت کریں گے، پولیس اگر بغیر عدالت کی اجازت کے ایسے مجرم کے ساتھ قتل والا معاملہ کرتی ہے تو مجرم ہے، بصورت دیگر اگر عدالت وقانون قتل کا حکم جاری کر دے کہ جہاں ملیں شوٹ کر دیں تو پھر تو مجرم نہیں قرار پاتے۔
والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ