سوال (1419)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن تروایح نماز ادا کی تھی ، کیا پورا مہینہ تراویح پڑھنا بدعت میں داخل نہیں ہے ؟
جواب
جس کی اصل موجود ہو ، اس پر بدعت کا فتویٰ نہیں دیا جاتا ہے ، بدعت وہ عمل ہوتا ہے ، جس کی اصل اور بنیاد معلوم نہ ہو ، تراویح کی بنیاد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود رکھی ہے اور باجماعت رکھی تھی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت بھی کردی ہے کہ “خشيت أن يكتب عليكم” تمہارے ذوق اور شوق کو دیکھ کر مجھے خطرہ محسوس ہوا ہے کہ تم پر فرض نہ کردی جائے ، اگر فرض کردی گئی تو پھر قیام میں مشکل ہو جائے گی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کے پیش نظر اس کو ترک کیا ہے ۔
باقی بہت سارے ادلہ ہیں ، جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دلائی ہے کہ تراویح پڑھ لیا کرو ، کچھ روایات ملتی ہیں کہ گاہے بگاہے آپ کو علم ہوا کہ لوگ آتے تھے کہتے کہ میں نے فلاں جگہ امامت کروائی ہے ، اتنی رکعات پڑھائی ہیں ، آپ خاموش رہے ۔ تو اثبات ہوا۔
پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں مشہور بات ہے کہ آپ نے دیکھا ہے کہ لوگ ٹولیوں کی شکل میں نماز پڑھ رہے ہیں ، اس کا مطلب ہے کہ وہ سلسلہ چلتا آ رہا تھا ، تو پھر آپ نے یہ کہا ہے کہ اگر ہم ان کو ایک امام کے پیچھے کھڑا کردیں ، تو پھر آپ نے وہ فیصلہ کردیا تھا ، سیدنا ابی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنھما کو حکم دے دیا کہ ایسا کریں ۔
تمام باتوں کو دیکھ کر یہ بات واضح ہے کہ ی سنت کے درجے میں ہے ، اس کی ترغیب دی گئی ہے۔
تمام باتوں کو ترک کرکے صرف آخری بات کو لے لیں کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جمع کیا تھا ، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ان خلفاء میں سے ہیں ، جن کی سنت کو لازم پکڑنے کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
“عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي، وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ، عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ”
[سنن ابن ماجه : 42]
«تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا، اس کو اپنے دانتوں سے مضبوطی سے تھامے رہنا»
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
حدیث مرفوع میں ہے کہ جس نے امام کے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ وہ پھر جائے اسے پوری رات کے قیام کا ثواب ملتا ہے۔
[سنن ابی داود]
فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ