ہمارا معاشرہ صرف خطیبوں کو اہمیت دیتا ہے،
تحقیق، تصنیف، تالیف، تدریس اور ترجمہ کے شعبوں میں مہارت رکھنے والے علماء کی صلاحیتوں کی ہم قدر نہیں کرتے، کام کرنے کے لیے ان کو مناسب وسائل اور اسٹیج فراہم نہیں کرتے، ان کو غم روز گار کی تنگنائیوں میں بھٹکتا چھوڑ دیتے ہیں جہاں وہ بہت کچھ وہ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جو دوسرے بھی کرسکتے تھے اور بہت کچھ وہ نہیں کرپاتے جو صرف وہ کرسکتے تھے۔
پھر ان کی موت ہوجاتی ہے تو ہم لمبے لمبے تعزیتی مضامین لکھتے ہیں اور قحط الجال کا رونا روتے ہیں، حالانکہ قحط الرجال ایسے نہیں پیدا ہوتا کہ اللہ صلاحیتیں پیدا کرنا بند کردیتا ہے، قحط الرجال ایسے ہوتا ہے کہ صلاحیتوں کا قدر کرنے والی نگاہیں پیدا ہو جاتی ہیں،
اگر ہم میں صلاحیتوں کی قدر کا حوصلہ نہیں تو کبار علماء کی وفات پر جو آنسو ہم بہا رہے ہیں ان کو مگرمچھ کے آنسو کہنا چاہیے اور ہم کو مردہ پرست قوم۔
سرفراز فیضی حفظہ اللہ