حضرت عمر بن خطاب ؓ کی فضیلت!

ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:

“وُضِعَ عُمَرُ عَلَى سَرِيرِهِ فَتَكَنَّفَهُ النَّاسُ يَدْعُونَ وَيُصَلُّونَ قَبْلَ أَنْ يُرْفَعَ وَأَنَا فِيهِمْ فَلَمْ يَرُعْنِي إِلَّا رَجُلٌ آخِذٌ مَنْكِبِي فَإِذَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَتَرَحَّمَ عَلَى عُمَرَ وَقَالَ مَا خَلَّفْتَ أَحَدًا أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أَلْقَى اللَّهَ بِمِثْلِ عَمَلِهِ مِنْكَ وَايْمُ اللَّهِ إِنْ كُنْتُ لَأَظُنُّ أَنْ يَجْعَلَكَ اللَّهُ مَعَ صَاحِبَيْكَ وَحَسِبْتُ إِنِّي كُنْتُ كَثِيرًا أَسْمَعُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ ذَهَبْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَدَخَلْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَخَرَجْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ”.

’’جب عمر رضی اللہ عنہ کو ( شہادت کے بعد ) ان کی چارپائی پررکھا گیا تو تمام لوگوں نے نعش مبارک کو گھیر لیا، اور ان کے لیے ( اللہ سے ) دعا اور مغفرت طلب کرنے لگے ، نعش ابھی اٹھائی نہیں گئی تھی ، میں بھی وہیں موجود تھا ۔ اسی حالت میں اچانک ایک صاحب نے میرا شانہ پکڑلیا ، میں نے دیکھا تو وہ علی رضی اللہ عنہ تھے ، پھر انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کے لیے دعا رحمت کی اور ( ان کی نعش کو مخاطب کرکے ) کہا ، آپ نے اپنے بعد کسی بھی شخص کو نہیں چھوڑا کہ جسے دیکھ کر مجھے یہ تمنا ہوتی کہ اس کے عمل جیسا عمل کرتے ہوئے میں اللہ سے جاملوں اور اللہ کی قسم مجھے تو ( پہلے سے ) یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ ہی رکھے گا ، میرا یہ یقین اس وجہ سے تھا کہ میں نے اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ الفاظ سنے تھے کہ ” میں ، ابوبکر اور عمر گئے ۔ میں ، ابوبکر اور عمر داخل ہوئے ۔ میں ، ابوبکر اور عمر باہر آئے‘‘۔

[صحیح البخاری: 3685]