اے طالب علم!! وقت وقت…

کیسی عجیب بات ہے نا! علم کا متلاشی ہو، اور وقت کی قدر سے غافل؟ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے پیاسا ہو اور پانی کے کنارے سے منہ موڑ لے۔افسوس صد افسوس! آج کا طالبِ علم وقت کے معاملے میں سب سے بے پروا دکھائی دیتا ہے۔ اُس کے گھنٹے، اُس کی ساعتیں، یوں بکھرتی چلی جاتی ہیں جیسے خزاں میں زرد پتے—خاموش، بے آواز، بے نشاں۔
سوشل میڈیا کی نرمی میں لپٹی سختی، بے ضرر دکھتی وہ مصروفیات، جن میں نہ کوئی علم ہے، نہ حکمت، نہ بصیرت، یونہی ایک ٹچ سے دوسرا ٹچ، ایک پیج سے دوسرے پیج پر، اور وقت… وقت کہیں پیچھے چھوٹ جاتا ہے، جیسے آنکھ سے بہہ جانے والا ایک نایاب آنسو۔
کبھی سیاسی شور و شغب میں کھو جانا، کبھی لمحاتی واقعات کی دھول میں اَٹ جانا، اور کبھی دل کے بہلاوے کے نام پر ایسی لغویات میں مشغول ہونا جو علم کے شایانِ شان نہیں…!
اللہ کے لیے! خیال کرو اس امانت کا، یہ جو تمہارے ہاتھ میں وقت کی صورت رکھا گیا ہے، یہ ایک سوال ہے جو کل تمہارے سامنے دہرایا جائے گا۔ کیا تمہیں حق ہے کہ تم لمبی نیندیں سوؤ؟ جب دین کی روشنی پر ہر سمت سے اندھیرے حملہ آور ہوں، تو کیسے ایک سنجیدہ طالبِ علم کو قرار آئے؟
ابنِ جریر رحمہ اللہ، کیا ان کے لیے وقت بے قیمت تھا؟ اگر ہوتا، تو کیا وہ تین لاکھ پچاس ہزار علمی صفحات کا سرمایہ اپنی امت کو دے پاتے؟ نہیں، وہ جانتے تھے کہ وقت علم کی بنیاد ہے، اور بنیاد کھوکھلی ہو تو عمارت کب سلامت رہتی ہے؟
تو اے سالکِ علم! اگر واقعی تو جانتا ہے کہ علم ایک امانت ہے، تو اُٹھ، وقت کو تھام، اور بن جا وہ جو کہتا ہے:
“میں نے نیند اُن کے لیے چھوڑ دی جو سونا جانتے ہیں…
مجھے تو اپنے وقت کی فِکر نے سونے نہ دیا!”

حافظ محمد طاہر