قربانی کے احکام
ایک بکری کا سب گھر والوں کی طرف سے کفایت کر جانا
“عَطَاءَ بْنَ يَسَارٍ يَقُولُ سَأَلْتُ أَبَا أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيَّ كَيْفَ كَانَتْ الضَّحَايَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ كَانَ الرَّجُلُ يُضَحِّي بِالشَّاةِ عَنْهُ وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ فَيَأْكُلُونَ وَيُطْعِمُونَ حَتَّى تَبَاهَى النَّاسُ فَصَارَتْ كَمَا تَرَى”.
عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے ابو ایوب سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں قربانیاں کیسے ہوا کرتی تھیں؟ انہوں نے بتایا: ایک آدمی اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک ہی بکری قربانی کیا کرتا تھا۔ پس اس سے وہ خود بھی کھاتے اور لوگوں کو بھی کھلایا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ لوگ (زیادہ تعداد میں جانور ذبح کرکے) آپس میں فخر کرنے لگے جیسا کہ تم (آج کل) دیکھ رہے ہو۔
[سنن الترمذی:1505] صحيح
صحابہ کا طریقہ
“عن عَبْدِ اللَّهِ بْنِ هِشَامٍ وَكَانَ قَدْ أَدْرَكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ… وَكَانَ يُضَحِّي بِالشَّاةِ الْوَاحِدَةِ عَنْ جَمِيعِ أَهْلِهِ”.
عبداللہ بن ہشام جنہوں نے نبی ﷺ کا زمانہ پایا تھا۔ وہ اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے ایک ہی بکری قربانی کیا کرتے تھے۔
[صحيح البخاری:7210]
نوٹ:
• اگرچہ گھر کے سربراہ کی طرف سے ایک بکری ہی سب گھر والوں کی طرف سے کفایت کر جاتی ہے لیکن زیادہ تعداد میں جانور ذبح کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
• البتہ لوگوں کی باتیں بنانے کے ڈر سے یا ریا کاری اور فخر و تکبر کے لیے مہنگا جانور خریدنا یا زیادہ جانور خریدنا درست نہیں۔
قاری نعیم الرحمن صافی حفظہ اللہ