امام فریابی رحمه الله بیان کرتے ہیں:
“كُنْتُ بِالمُزْدَلِفَةِ أُحْيِي اللَّيْلَ، فَإذا بِامْرَأةٍ تُصَلِّي إلى الصَّباحِ ومَعَها شَيْخٌ، فَسَمِعَتْهُ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إنّا قَدْ جِئْناكَ مِن حَيْثُ تَعْلَمُ، وحَجَجْنا كَما أمَرْتَنا، ووَقَفْنا كَما دَلَلْتَنا، وقَدْ رَأيْنا أهْلَ الدُّنْيا إذا شابَ المَمْلُوكُ فِي خِدْمَتِهِمْ تَذَمَّمُوا أنْ يَعْتِقُوهُ، وقَدْ شِبْنا فِي خِدْمَتِكَ فَأعْتِقْنا”.
”میں مزدلفہ میں رات کو جاگ رہا تھا، کیا دیکھتا ہوں کہ ایک خاتون نماز پڑھ رہی ہے، اور اس کے پاس اس کا بوڑھا خاوند مناجات کرتے ہوئے کہہ رہا ہے: ”مولا! … ہم نے دنیا والوں کو دیکھا ہے کہ جب غلام ان کی خدمت کرتے کرتے بوڑھا ہو جاتا ہے تو وہ اسے آزاد کر دیتے ہیں۔ ہم بھی تیری بندگی کرتے کرتے بوڑھے ہو چلے ہیں، ہمیں بھی آگ سے آزاد کر دے۔“
[مثير الغرام الساكن إلى أشراف الأماكن لابن الجوزي : ٢٠٣]
عبدالعزیز ناصر حفظہ اللہ