علم کی زکاۃ

قاسم بن اسماعیل بن علی بیان کرتے ہیں کہ ہم بشر بن الحارث رحمہ اللہ کے دروازے پر تھے کہ وہ باہر نکلے، ہم نے کہا : ابو نصر! ہمیں احادیث بیان کریں ۔ انہوں نے پوچھا : کیا تم حدیث کی زکاۃ دیتے ہیں؟ میں نے عرض کیا : اے ابو نصر! حدیث کی بھی زکاۃ ہوتی ہے؟ فرمایا : ’’جی ہاں! (زکاۃ یہ ہے کہ) جب بھی آپ کوئی حدیث سنیں، جس میں کسی عمل، (نفلی) نماز یا تسبیح کا ذکر ہو تو اس پر عمل کریں۔‘‘
(حدیث أبي الفضل الزهري : ١٤٥، الجامع لأخلاق الراوي للخطيب : ١/ ١٤٣ وفي سنده إبراهيم بن عبد الله بن أيوب المخرمي وهو ضعیف)

عبید بن محمد وراق بیان کرتے ہیں کہ میں نے بشر بن الحارث رحمہ اللہ کو فرماتے سنا : ’’اے اہل حدیثو! حدیث کی زکوۃ نکالا کرو۔ پوچھا گیا : اے ابو نصر! ہم اس کی زکاۃ کیسے دیں گے؟ فرمایا : (نفل اعمال سے متعلقہ) ہر دو سو احادیث میں سے کم از کم پانچ پر ضرور عمل کیا کرو۔‘‘
(شعب الإيمان للبيهقي : ٣/ ٢٨٦ ورجاله ثقات)

ابو خالد الاحمر بیان کرتے ہیں کہ میں نے عمرو بن قیس کو فرماتے سنا : ’’جب بھی آپ تک کوئی خیر کی بات پہنچے تو اس پر کم از کم ایک مرتبہ ضرور عمل کر لو، تم اس بھلائی کے عاملین میں سے شمار ہو جاؤ گے۔‘‘

(تاریخ بغداد للخطيب : ١٢/ ١٦٣ وسندہ صحیح)

مروذی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کہا : ’’میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے جو بھی حدیث لکھی ہے اس پر عمل کیا ہے، حتی کہ جب یہ حدیث گزری کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے سینگی لگائی اور ابو طیبہ کو ایک دینار دیا۔ تو میں نے بھی سینگی لگانے والے کو ایک دینار دے کر سینگی لگوائی۔‘‘

(الجامع لأخلاق الراوي : ١/ ١٤٤ وفي سندہ إنقطاع)

حافظ محمد طاھر حفظہ اللہ