کنارے پر رہ کر عبادت کرنے والے
اللہ تعالی فرماتے ہیں:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَى حَرْفٍ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انْقَلَبَ عَلَى وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ ذَلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ.
’’اور لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو کنارے پر (کھڑا ہو کر) اللہ کی عبادت کرتا ہے۔ اگر اسے کچھ فائدہ ہو تو (اسلام سے) مطمئن ہوجاتا ہے اور اگر کوئی مصیبت پڑجائے تو الٹا پھر جاتا ہے۔ ایسے شخص نے دنیا کا بھی نقصان اٹھایا اور آخرت کا بھی۔ یہ ہے صریح خسارہ‘‘۔
[سورة الحج: 11]
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
“وَمِنْ النَّاسِ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَى حَرْفٍ قَالَ كَانَ الرَّجُلُ يَقْدَمُ الْمَدِينَةَ فَإِنْ وَلَدَتْ امْرَأَتُهُ غُلَامًا وَنُتِجَتْ خَيْلُهُ قَالَ هَذَا دِينٌ صَالِحٌ وَإِنْ لَمْ تَلِدْ امْرَأَتُهُ وَلَمْ تُنْتَجْ خَيْلُهُ قَالَ هَذَا دِينُ سُوءٍ”.
’’کوئی بندہ مدینہ آکر (اپنے اسلام کا اظہار کرتا) اس کے بعد اگر اس کی بیوی کے یہاں لڑکا پیدا ہو جاتا اور گھوڑی بھی بچہ دیتی تو کہتا کہ یہ دین (اسلام) بڑا اچھا دین ہے، لیکن اگر لڑکا پیدا نہ ہوتا اور گھوڑی بھی کوئی بچہ نہ دیتی تو کہتا کہ یہ تو برا دین ہے، اس پر مذکور بالا آیت نازل ہوئی‘‘۔
[صحیح البخاري: 4742]
حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ