مسلمان بھائی کی غیر موجودگی میں دعا

سدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ (٣٢هـ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

«دَعْوَةُ الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ لِأَخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ مُسْتَجَابَةٌ، عِنْدَ رَأْسِهِ مَلَكٌ مُوَكَّلٌ، كُلَّمَا دَعَا لِأَخِيهِ بِخَيْرٍ قَالَ الْمَلَكُ الْمُوَكَّلُ بِهِ : آمِينَ، وَلَكَ بِمِثْلٍ».

’’مسلمان کی اپنے مسلمان بھائی کے لیے اس کی غیر موجودگی میں کی گئی دعا قبول ہوتی ہے، اس کے سر کے قریب ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے، وہ جب بھی اپنے بھائی کے لیے دعائے خیر کرتا ہے تو مقرر کیا ہوا فرشتہ اس پر کہتا ہے: آمین، اور تمہیں بھی اسی کے طرح عطا ہو‘‘۔

[صحيح مسلم : ٢٧٣٣]

⇚سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ (١٣هـ) فرماتے ہیں :

«إِنَّ دَعْوَةَ الْأَخِ فِي اللَّهِ تُسْتَجَابُ».

’’اپنے دینی بھائی کے لیے کی گئی دعا قبول ہوتی ہے‘‘۔

[الأدب المفرد للبخاري : ٦٢٤ وسنده صحیح]

⇚عون بن عبد اللہ تابعی رحمہ اللہ (بين ١١٠هـ و١٢٠هـ) فرماتے ہیں :

«أَرْبَعٌ لَا يُحْجَبْنَ عَنِ اللَّهِ: دَعْوَةُ وَالِدٍ رَاضٍ، وَإِمَامٍ مُقْسِطٍ، وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ، وَدَعْوَةُ الرَّجُلِ دُعَاءً لِأَخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ».

’’چار دعاؤں کی اللہ تعالی سے رکاوٹ نہیں ہوتی، رضامندی والد کی دعا، عادل حکمران کی دعا، مظلوم کی دعا اور بندے کی اپنے مسلمان بھائی کی غیر موجودگی میں کی گئی دعا‘‘۔

[المصنف لابن أبي شيبة – ت الحوت : ٦/‏٤٨ وسنده صحیح]

⇚یوسف بن اسباط رحمہ اللہ (١٩٥هـ) فرماتے ہیں :

«مَكَثْتُ دَهْرًا وَأَنَا أَظُنُّ أَنَّ قَوْلَ النَّبِيِّ، ﷺ: أَفْضَلُ الدُّعَاءِ دُعَاءُ غَائِبٍ لِغَائِبٍ أَنَّهُ إِذَا كَانَ غَائِبًا، ثُمَّ نَظَرْتُ فِيهِ، فَإِذَا هُوَ لَوْ كَانَ عَلَى الْمَائِدَةِ، ثُمَّ دَعَا لَهُ وَهُوَ لَا يَسْمَعُ، كَانَ غَائِبًا».

’’میں طویل عرصے تک سمجھتا تھا کہ نبی کریم ﷺ کے اس فرمان کہ ’’ سب سے افضل دعا، ایک غائب کی دوسرے غائب کے لیے دعا ہے۔‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص واقعی غیر موجود ہو۔ پھر میں نے اس حدیث پر غور کیا، تو معلوم ہوا کہ اگر وہ شخص اس کے ساتھ ایک ہی دستر خوان پر بھی موجود ہو، وہ اس کے لیے دعا کرے اور وہ سن نہ رہا ہو، تو وہ بھی غائب (غیر موجود) ہی شمار ہوتا ہے‘‘۔

[مكارم الأخلاق للخرائطي، صـ ٢٥٦]

حافظ محمد طاھر حفظہ اللہ