نمازِ فجر کا ضیاع

’’جو بندہ نمازِ فجر کے وقت سویا رہتا ہے اور اسے ضائع کر دیتا ہے وہ اس قدر بڑے جرم کا مرتکب ہے کہ اللہ کی پناہ۔ آپ اندازہ لگائیں کہ ایک انسان اپنے دن کا آغاز ہی اللہ تعالی کی نافرمانی سے کرے۔ حدیثِ قدسی میں ہے، اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں : ’’میرا بندہ جس چیز کے ذریعے میرا تقرب حاصل کرتا ہے اس میں مجھے محبوب ترین عمل وہ ہے جو میں نے اس پر فرض کیا ہے‘‘۔

[صحیح البخاری : 6502]

اگر کسی کی صبح ہی اس حالت میں ہو کہ وہ اللہ کے پسندیدہ ترین عمل کو ضائع کر رہا ہو، اسے اپنے رب کی پسند و ناپسند اور رضامندی و ناراضگی کی پرواہ ہی نہ ہو، اُس سے کس خیر کی امید رکھی جا سکتی ہے؟ اتنا بڑا نقصان کر کے اب وہ سارے دن میں کس نفع کی امید لگائے بیٹھا ہے؟ اپنا سب کچھ خسارے میں ڈال کر اب وہ کیا بچانا چاہ رہا ہے؟ اپنے خالق و مالک کی ناراضگی و نافرمانی مول لے کر اب وہ کس کی رضامندی کا طالب ہے؟ انصاف سے بتائیے! جب ایک بندہ اپنا تعلق ہی اپنے رب سے نہیں جوڑنا چاہتا تو اب اس نے پورے دن میں پیش آمدہ تنگیوں اور پریشانیوں میں کس منہ سے اس سے امید لگا رکھی ہے؟

حافظ محمد طاھر حفظہ اللہ