گناہ گار کو چادر میں چھپا لیں!

عبد الرحمن بن حرملہ رحمہ اللہ (١٤٤هـ) بیان کرتے ہیں :
’’خرجتُ إلى الصبح فوجدت سكران فلم أزل أجره حتى أدخلته منزلي. قال فلقيت سعيد بن المسيب فقلت: لو أن رجلا وجد سكران أيدفعه إلى السلطان فيقيم عليه الحد؟ قال فقال لي: إن استطعت أن تستره بثوبك فافعل. قال فرجعت إلى البيت فإذا الرجل قد أفاق فلما رآني عرفت فيه الحياء فقلت: أما تستحيي؟ لو أخذت البارحة لحددت فكنت في الناس مثل الميت لا تجوز لك شهادة. فقال: والله لا أعود له أبدا.‘‘
قال ابن حرملة: فرأيته قد حسنت حاله بعد.

’’میں صبح کی نماز کے لیے نکلا تو ایک شخص کو نشے میں دُھت پایا، میں نے اسے کھینچ کھینچ کر اپنے گھر میں داخل کر لیا۔ پھر سعید بن مسیب رحمہ اللہ (بعد ٨٧هـ) سے ملا تو ان سے پوچھا : اگر کسی بندے کو کوئی نشے میں ملے تو کیا وہ اسے حکمران کے پاس حَد لگوانے کے لیے لے جائے؟ تو انہوں نے فرمایا : ’’بلکہ اگر آپ اسے اپنے کپڑے میں چھپا سکو تو چھپا لو۔‘‘ کہتے ہیں : میں گھر واپس آیا تو اس شخص کا نشہ اتر چکا تھا اور مجھے اس کے چہرے پر شرمندگی نظر آئی۔ میں نے کہا : تمہیں شرم نہیں آتی؟ اگر رات میں تمہیں پکڑ کر لے جاتا اور حَد لگ جاتی تو تم لوگوں میں مُردوں کی طرح ہوجاتے، تمہاری کوئی گواہی بھی قبول نہ ہوتی۔ وہ کہنے لگا : اللہ کی قسم! میں آئندہ کبھی یہ حرکت نہیں کروں گا۔‘‘
ابن حرملہ کہتے ہیں : پھر میں نے اسے دیکھا، اس کے بعد واقعی اُس کی حالت اچھی ہوگئی۔

(الطبقات الكبرى – ط دار صادر ٥/‏١٣٤ وسنده حسن)

حافظ محمد طاهر حفظہ اللہ