سوال (3582)
ایک شخص کے والد اسے کے دادا کی وفات سے پہلے وفات پا گئے ہیں، دادے نے اس کے والد کی جتنی اپنی طرف سے وراثت بنتی تھی، اتنی خود خرید کر کے دے دی، اس خیال سے کہ یہ میری وراثت سے محروم ہو گیا، دادا کی وفات کے بعد اس شخص نے پاکستان کے قوانین کے تحت دادا کی وراثت سے حصہ لیا ہے، جس پر اس کے اصل وارث رضا مند نہیں ہیں، کیا اس انداز سے زمین حاصل کرنا درست ہے؟
جواب
پاکستان میں یہ قانون ہے کہ وارث اگر مورث سے پہلے فوت ہو جائے تو اس کی اولاد کو حصہ ملتا ہے، یہ قانون غلط ہے، یہاں پر پوتے کا کسی قسم کا حصہ لینا یا مطالبہ کرنا شرعاً درست نہیں ہے، اگر اس پوتے کا چچا یا تایا وغیرہ موجود ہے۔ تو شریعت کا اصول ہے کہ قریبی وارث کی موجودگی میں دور والا وارث حصے دار نہیں بنتا، پھر دادا نے اس پر کمال شفقت کرتے ہوئے اپنی زندگی میں اس کو بہت کچھ دے تو دیا ہے، اب یہ جو کچھ مانگ رہا ہے، یہ شریعت کی خلاف ورزی اور لالچ پر مبنی ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ
سائل: اس شخص کی اولاد بھی نہیں ہے، زمین حاصل بھی کر لی ہے اور اس پر مسجد و مدرسہ بھی تعمیر کر لیا ہے، اس میں سے باقی جو بچا ہے، اسے اپنی بیوی کے نام کروا دیا ہے، تاکہ بیوی کے بھائی وارث بنیں۔ اب اس مسجد اور مدرسے کے حوالے سے کیا رہنمائی ملتی ہے؟
جواب: شریعت اسلامیہ میں ہر مسئلے کا حل ہے، جو انسان اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے، تقوی اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے مسائل سے نکلنے کے آسانیاں پیدا کرتا ہے، اگر اس آدمی کے دل میں ڈر موجود ہے تو وہ اپنی بیوی سے کہہ کر جائیداد واپس لے سکتا ہے، مسجد، مدرسہ یا دکان جو بھی بن گیا ہے، اس کی قیمت لگوا کر وہ اپنے بھائیوں کو دے سکتا ہے، اس لیے کہ اگر ہمیں آخرت عزیز ہے تو بڑی سے بڑی قربانی دینی چاہیے، کیونکہ دنیاوی زندگی عارضی ہے، یہ آخرت کے عذاب کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔
فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ