پروفیسر ساجد میر صاحب حفظہ اللہ کا مختصر تعارف

اُحِبُّ الصَّالِحِينَ وَلَسْتُ منهم* وأَرْجُو أَن أَنَالَ بِهِمْ شفَاعَة.

میں نیک لوگوں سے محبت کرتا ہوں، لیکن خود نیک نہیں، امید ہے نیک لوگوں کے ذریعہ اللہ تعالی میری بھی اصلاح (شفاعت) فرما دیں گا۔

قائداہل حدیث سینیٹر پروفیسر ساجد میر صاحب حفظہ اللہ(امیرمرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان)کا مختصرتعارف

پروفیسر ساجد میر صاحب ماہر تعلیم ، مستند عالم دین اور سنجیدہ فکر سیاستدان ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسلام اور وطن سے محبت اور اس کے لیے ایثار و قربانی کو فرض اولین سمجھتے ہیں۔ملک بھر سے اہل حدیث سیاسی فکر کے حامل کارکنان ان پر اعتماد کرتے ہیں اور آپ کی قیادت میں سیاسی و فکری سفر کرنا سعادت سمجھتے۔جنرل پرویز مشرف کے خلاف ان کا تنہا ووٹ، ان کی دلیری اور استقلال کی دلیل تھا۔ ایوان بالا میں ان کی تقاریر ان کے وسعتِ مطالعہ، قوت استدلال، استعدادِ تجزیہ، استحضار اور ملکہ افہام کے ساتھ ساتھ جرأت اظہار کی عکاس ہیں۔ وہ ہر لحاظ سے ایک نستعلیق شخصیت کے مالک، سنجیدہ و متین اور وقیع شخص ہیں۔
نام

ساجد میر بن عبدالقیوم میر
پیدائش

2 اکتوبر 1938ء کو سیالکوٹ کے محلہ میانہ پورہ کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ آباد ہوئے۔

دینی تعلیم کاآغاز

پروفیسر ساجد میر صاحب نےابتدائی تعلیم کا آغاز گھر سے کیا۔پھر جامعہ ابراہیمیہ سیالکوٹ میں داخلہ لیا وہیں سےآپ نے قرآن حکیم مکمل حفظ کیا اور یہ اعزاز آپ نے دوران ملازمت حاصل کیا اور آج بھی تراویح میں قرآن حکیم سنا رہے ہیں۔ دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے آپ نے لاہور گورنمنٹ کالج میں دوران تدریس مدرسہ غزنویہ میں پڑھنا شروع کیا۔آپ مدرسہ میں ہی قیام فرماتے تھے لہذا وہاں کے ممتاز اساتذہ خاص کر مولانا حافظ محمد اسحاق حسین خان والے سے کتب حدیث پڑھیں آپ بے حد ذہین اور محنتی ہونے کے ساتھ اپنے دادا حضرت العلام مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کے نقش قدم پر دینی ماحول سے رنگے ہوئے تھے لہذا قول و عمل میں ایک ثانیت اپ کو ورثہ میں ملا اور مزاج میں نیکی اور صالحیت کا غلبہ ہے
سیالکوٹ میں بھی درس نظامی پڑھتے رہے کچھ عرصہ

دینی میدان میں مندرجہ ذیل اسناد کے حامل ہیں

فاضل درس نظامی، جامعہ ابراہیمیہ سیالکوٹ، 1971ء،
فاضل دارالعلوم تقویۃ الاسلام شیش محل روڈ لاہور، 1972ء،
عالمیہ کورس وفاق المدارس السلفیہ۔

عصری تعلیم

آپ جدید علوم کے ساتھ ساتھ قدیم علوم میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ پروفیسر ساجد میر صاحب عربی، اردو اور انگریزی میں یکساں عبور رکھتے ہیں اور قلم و زبان کے ذریعے بے تکلفی سے ان زبانوں میں اظہار مدعافرماتے ہیں۔
♡عصری تعلیم کے مراحل♡
(1)ایم۔ اے (انگلش) ۔۔۔ گورنمنٹ کالج لاہور، 1960ء، سیکنڈ ڈویژن،
(2)ایم۔ اے (اسلامیات)، پنجاب یونیورسٹی، 1969ء، فرسٹ ڈویژن،
(3)بی۔ اے (سیاسیات و عربی) ۔۔۔ مرے کالج سیالکوٹ، 1958ء، مع انگلش اور عربی میں میرٹ سکالر شپ،
(4)بی۔ اے (ایڈیشنل) معاشیات ۔۔۔ پنجاب یونیورسٹی، مئی 1965ء،
(5)بی۔ اے (ایڈیشنل) نفسیات ۔۔۔ پنجاب یونیورسٹی، جولائی 1966ء

دوران تعلیم جو ایوارڈ حاصل کیے

(1)مرے کالج سیالکوٹ، (1954ء تا 1958ء) میں جو تعلیمی امتیازات (ایوارڈ) حاصل کئے، ان کی تفصیل یوں ہے کہ میر حسن میڈل (ڈگری کلاس کے مضمون عربی میں پہلی پوزیشن پر)،
(2)محمد علی میڈل (ڈگری کلاس کے مضمون انگلش میں پہلی پوزیشن پر)،
(3)عمومی قابلیت میں دوسرا انعام (1958- 1957) ،
(4)تاریخ اور عربی میں پہلا انعام (1956- 1954) ،
(5)معاشیات، انگریزی اور فارسی میں دوسرا انعام (1956-1954)
(6)سالانہ انگریزی مباحثہ اور تقریری مقابلہ میں پہلا انعام (دو مرتبہ)،
(7)اردو تقریری مقابلہ میں پہلا انعام (دو مرتبہ)،
(8)انگریزی و اردو میں فی البدیہہ تقریری مقابلہ میں دوسرا انعام ،
(9)انگریزی مضمون نویسی کے مقابلہ میں پہلا انعام (دو دفعہ)،
(10)معلومات عامہ کے مقابلہ میں پہلا انعام ،(دو دفعہ)

عملی زندگی کا آغاز

تعلیم سے فراغت کے بعد آپ جناح اسلامیہ کالج سیالکوٹ میں انگریزی کے لیکچرار مقرر ہوئے(1960 تا 1975ء
♡مختلف اداروں میں خدمت سرانجام دیتے رہے ♡
(2)انسٹرکٹر (انگلش)، گورنمنٹ پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ سیالکوٹ (1963ء تا 1966ء) ،
(3)سینئر انسٹرکٹر (انگلش اینڈ مینجمنٹ) گورنمنٹ پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ سیالکوٹ و لاہور (1966ء تا 1975ء) ،
(4)سینئر ایجوکیشن آفیسر (سینئر لیکچرار)، فیڈرل گورنمنٹ آف نائیجیریا (1975ء تا 1977ء) ،
(5)پرنسپل ایجوکیشن آفیسر (اسسٹنٹ پروفیسر) فیڈرل گورنمنٹ آف نائیجیریا (1977ء تا 1981ء) انگلش اور اسلامیات ،
(6)اسسٹنٹ چیف ایجوکیشن آفیسر (ایسوسی ایٹ پروفیسر) فیڈرل گورنمنٹ آف نائیجیریا (1981 ء تا 1984ء) ۔
(7)آفیسر انچارج، شعبہ ریلیٹڈ اور بیسک سٹڈیز، گورنمنٹ پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ سیالکوٹ (1972ء تا 1975ء) ،
(8)ممتحن اعلیٰ و پیپر سیٹر پنجاب بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن ( 1969ء تا 1975ء)،
(9)جنرل سیکرٹری، پولی ٹیکنیک ٹیچرز ایسوسی ایشن، مغربی پاکستان (1970-1968ء)
(10)صدر، پولی ٹیکنیک ٹیچرز ایسوسی ایشن (1972ء تا 1975ء)۔

جماعتی و سیاسی زندگی

دوران تعلیم بھی آپ مرکزی جمعیت اہل حدیث کے شبان اہل حدیث سے وابستہ تھے۔ مختلف مواقع پر بڑی ذمہ داریاں ادا کرچکے تھے مگر نائجیریاجانے کی وجہ سے یہ سلسلہ منقطع ہوگیاوطن واپسی کے بعد دوبارہ جماعت سے وابستہ ہوگئے۔ یہ دور علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید رحمہ اللہ کے زمانہ عروج کا تھا لہذا ان سے قریبی تعلق قائم ہوا علامہ صاحب رحمہ اللہ ان کے بڑی قدر کرتے تھے اور تمام معاملات میں انہیں شامل مشورہ رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ احسان اللہ ظہیر کی ناگہانی شہادت کے بعد انہیں جمعیت اہل حدیث کا ناظم اعلی نامزدکردیاگیا۔
مرکزی جمعیت اہل حدیث کے ناظم اعلی میاں فضل حق رحمہ اللہ نے اپنی مساعی جمیلہ سے جماعت اہل حدیث کے دو دھڑوں میں صلح کرادی۔ جس کے نتیجہ میں متحدہ جمعیعت اہل حدیث قائم ہوئی۔اس کے بعد باضابطہ انتخاب ہوئے اور مرکزی جمعیت اہل حدیث کو بحال کردیا گیا۔ جس کے امیر علامہ ساجد میر حفظہ اللہ کو منتخب کیا گیا جبکہ میاں فضل حق رحمہ اللہ کو ناظم اعلٰی کے عہدے سے سرفراز کیا گیا۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث مسلم لیگ کے ساتھ مل کر اپنی سیاسی جدوجہد کرتی رہی ہے۔ اتفاق سے ان دنوں مسلم لیگ کی قیادت میاں نواز شریف کے پاس تھی جو کہ میاں فضل حق رحمہ اللہ سے بہت متاثر تھے لہذا 1992ء میں انہوں نے میاں فضل حق رحمہ اللہ کو سینٹ کی ایک سیٹ آفر کی۔ جسے میاں صاحب رحمہ اللہ نے پروفیسر ساجد میر صاحب کو پیش کردی اور کہا یہ اس سیٹ کے زیادہ حقدار ہیں اس وقت سے اب تک چار بار علامہ پروفیسر ساجد میر سینٹ کے رکن بن چکے ہیں۔

دعوتی اور جماعتی اسفار

علامہ ساجد میرصاحب نے لا تعداد اور جماعتی پروگراموں میں شرکت کے لیے متعدد ممالک کے سفر کیے ہیں۔جن میں سعودی عرب، امارات، کویت، بحرین، مصر، برطانیہ، امریکہ، کینیڈا،اٹلی، یورپ ممالک، انڈونیشیا، ملائیشیاء وغیرہ شامل ہیں۔جن کی تفصیلات درج ذیل ہیں۔
(1) انٹرنیشنل دعوت کانفرنس، برمنگھم 2008 ,2004, 2000 ,1988 ,1987, 1985ء تا 2011ء،
(2) اسلامی کانفرنس برمنگھم، لندن، مانچسٹر، گلاسکو، 2005, 2001, 2000, 1999 ء،
(3) یورپین اسلامی کانفرنس، لندن 1992 ,1988 ء،
(4) عالمی اسلامی کانفرنس، فلپائن 1988 ء،
(5) عالمی حج کانفرنس، استنبول (ترکی) 1988 ء،
(6) عالمی امن کانفرنس، بغداد (عراق)، 1989 ,1987 ء،
(7) رابطہ عالم اسلامی کانفرنس، مکہ معظمہ، 2013, 2011, 2001, 1999 ,1990ء،
(8) دعوت کانفرنس، امریکہ (نیو یارک، نیو جرسی) 1989ء
(9) دعوت کانفرنس، بھارت (بمبئی، دہلی، بنارس) 1990 ء،
(10) بین الاقوامی کانفرنس، ریاض (سعودی عرب) 1991ء،
(11) بین الاقوامی کانفرنس، کویت 1992,1991ء،
(12) ایشیائی حج کانفرنس کوالالمپور (ملائیشیاء) 1990ء،
(13) دعوت کانفرنس سنگا پور 1990 ء،
(14) بین الاقوامی اسلامی کانفرنس برائے وسط ایشیائی ریاستیں، ماسکو 1991 ء،
(15) دعوت کانفرنس، متحدہ عرب امارات 1991 ء،ایشیائی اسلامی کانفرنس، کولمبو (سری لنکا) 1993ء،
(16) عالمی اسلامی کانفرنس، انڈونیشیا 2002ء،
(17) سیرت کانفرنس، ٹریپولی، لیبیا 1998، 2003ء۔
اس کے علاوہ بیلجئم، ہالینڈ، سوئٹزر لینڈ، اٹلی، فرانس، نائیجیریا، کینیا، سپین، ڈنمارک، آئیر لینڈ، کینیڈا ، یونان کے سفرکرچکے ہیں
اور بھرپور طریقے سے اسلام اور جماعتی نمائندگی کا حق ادا کررہے ہیں

تصنیف وتالیف

علامہ ساجد میر صاحب تصنیف وتالیف کا ذوق بھی رکھتے ہیں آپ کی معرکہ آراء کتاب “عیسائیت” ہے
جس کے اب تک متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ مختلف زبانوں میں کتاب کا ترجمہ ہوچکا ہے۔ عیسائیت پر اس سے بہتر تحقیقی کتاب میسر نہیں ہے۔ علاوہ ازیں آپ کے بہت سے مضامین اور مقالات مختلف اخبارات اور دینی مجلات میں شائع ہوتے ہیں۔ جنہیں بڑی دلچسپی سے پڑھا جاتا ہے اور آپ کے خطبہ جمعہ “خطبات امیر” کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔باقی درج ذیل ہیں
(1) عیسائیت، مطالعہ و تجزیہ
(2)تصحیح ترجمہ ’’صحیح مسلم‘‘ مطبوعہ شیخ محمد اشرف پبلشرز
(3)تصحیح ترجمہ ’’ماذا خسر العالم من انحطاط المسلمین‘‘ از مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ
(4) ترجمہ (عربی سے انگریزی) ’’الحزب لمقبول‘‘ (دعاؤں کی معروف و مقبول کتاب)
(5)مختلف ملکی اخبارات و جرائد میں اسلامی، سیاسی اور معاشری موضوعات پر مضامین
(6)ہفت روزہ ’’ترجمان الحدیث‘‘، ’’اہلحدیث‘‘ اور ’’الاسلام‘‘ میں تفسیر، حدیث، اسلامی تاریخ، فقہ اور اسلام کی معاشرتی اخلاقی اور سیاسی تعلیمات کے بارے میں مضامین لکھ چکے ہیں۔

وفاق المدارس السلفیہ فیصل آباد سے وابستگی

وفاق المدارس السلفیہ کےپہلے صدر محترم حافظ محمد یحیی میر محمدی رحمہ اللہ تھے، ان کے بعد مولانا محمد سید حبیب الرحمن بخاری رحمہ اللہ صدر بنے مگر 1992ء میں ذاتی وجوہات کی بنا پروہ سبکدوش ہوگئے ان کی جگہ وفاق المدارس کی مجلس شوری کے منعقد اجلاس جامعہ سلفیہ میں اتفاق رائے سے علامہ پروفیسر ساجد میر صاحب کو صدر وفاق المدارس السلفیہ منتخب کیا گیا۔ آپ کی صدارت میں وفاق المدارس السلفیہ کےنظم ونسق میں بہت بہتری آئی اور لا تعداد مدارس اور جامعات وفاق المدارس سے وابستہ ہوگئے۔ آپ کی وفاق کے لیے خدمات مثالی ہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ بہت سے مدارس ومساجد کے سر پرست اعلی بھی ہیں۔

جرأت کی مثال

پروفیسر ساجد میر صاحب نے سیاست کے میدان میں اپنی اصول پسندی اور جرأت اظہار سے اپنا ایک مقام پیدا کیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف ان کا تنہا ووٹ، ان کی دلیری اور استقلال کی دلیل تھا۔ ایوان بالا میں ان کی تقاریر ان کے وسعتِ مطالعہ، قوت استدلال، استعدادِ تجزیہ، استحضار اور ملکہ افہام کے ساتھ ساتھ جرأت اظہار کی عکاس ہیں۔وہ ہر لحاظ سے ایک نستعلیق شخصیت کے مالک، سنجیدہ و متین اور وقیع شخص ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پروفیسر ساجد میر صاحب حفظہ اللہ کی دینی، تصنیفی،تعمیری، جماعتی، تدریسی، تبلیغی اور ملی خدماتِ جلیلہ کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور آپ کو صحت کاملہ عطا فرمائےآمین!

●ناشر: حافظ امجد ربانی
● فاضل: جامعہ سلفیہ فیصل آباد
●مدرس: جامعہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ سندر لاہور

یہ بھی پڑھیں: قاری محمد یحییٰ رسولنگری رحمہ اللہ کا مختصر تعارف