پروفیسر محمد شفیق کوکب رحمہ اللہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے

انا للہ وانا الیہ راجعون۔

کل نفس ذائقۃ الموت
ہر جان موت کو چکھنے والی ہے۔

آپ جامعہ لاہور الاسلامیہ (رحمانیہ) سے فاضل تھے تقریباً 1992 میں آپ نے سند فراغت حاصل کی اور تب سے ادارہ محدث سے ہی منسلک تھے تقریبا اپنی عمر کے 38 برس ادارے میں ہی گزار دیے اور اشاریہ محدث کی تیاری میں پروفیسر صاحب کی خصوصی معاونت رہی اسی طرح حال ہی میں آپ نے ڈاکٹریٹ آف فلاسفی مکمل کیا اور عرصہ دراز سے جناح اسلامیہ کالج لاہور میں پروفیسر تھے۔
پروفیسر صاحب والد گرامی کے قریب ترین ساتھیوں میں سے تھے بلکہ جہاں تک میں نے دیکھا کہ والد گرامی کے ایک یہی ساتھی تھے کہ والد گرامی کی راز و نیاز کی باتیں ان تک ہی محدود تھیں آپسی تعلق بھائیوں سے کہیں بڑھ کے تھا،وہ کہا جاتا ہے کہ بھائی بھائی کے لیے بازو کی مثل ہوتا ہے تو گویا والد گرامی آج ایسے ہی محسوس کر رہے ہوں گے جیسے ان کا بازو جدا ہوا چکا ہے۔
2011 ء میں جب میں لاہور آیا تو والد گرامی کی رہائش جامعہ رحمانیہ میں تھی اور پروفیسر صاحب ان کے کمرہ فیلو تھے اور میں بھی والد گرامی کے ساتھ ہی کمرے میں رہتا تھا تو اس دوران پروفیسر صاحب کو بےحد شفیق پایا۔ گویا اسم بامسمی تھے۔میری عصری تعلیم کے سلسلے میں ان کی خصوصی معاونت حاصل رہی خاص طور جب امتحانات کا وقت ہوتا تو امتحان کے حوالے بہت سی اہم چیزوں کی طرف راہنمائی فرمایا کرتے اور پھر یہاں تک کہ میں نے پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کر لیا۔
اور میں جب بھی لائبریری جایا کرتا بڑی شفقت و محبت سے گلے لگایا کرتے اور کہتے ” او آ او پتر سنا کی حال ہے ٹھیک ایں ہور سنا ۔۔۔۔۔ ”
اور جب میرا داخلہ مدینہ یونیورسٹی ہوا تو میڈیکل کے کچھ مسائل آگئے اس دوران پروفیسر صاحب کی احساس مندی قابل تحسین تھی بالآخر اللہ تعالیٰ کی خصوصی مدد اور پروفیسر صاحب کے توسط سے میڈیکل کے مسائل حل ہوئے ۔ ہمیشہ اپنے بیٹوں سے بڑھ کے میرے ساتھ شفقت فرماتے۔
اسی طرح ادارہ محدث کے باقی احباب کے ساتھ بھی پروفیسر صاحب کا رویہ بے حد مشفقانہ تھا۔
اللہ رب العزت پروفیسر صاحب کی حسنات کو قبول فرمائے اور سیئات سے درگزر فرمائے۔ آمین

ابن اصغر

یہ بھی پڑھیں: یہ دنیا فانی ہے