پاکستان میں پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیوں کا مالی بحران بڑھتا چلا جا رہا ہے اور اصلاح احوال کی کسی بھی سنجیدہ کوشش کا دور دور تک نشان تک نہیں ہے۔ تقریبا تمام بڑی اور قابل ذکر پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کا گزشتہ سال اور امسال کا سالانہ میزانیہ کئی ملین روپوں کا خسارہ ظاہر کر رہا ہے۔ اس خسارے کی بنیادی طور پر دو تین بڑی وجوہات ہیں جن میں حکومت کی طرف سے سالانہ تنخواہوں میں اضافہ، ٹرانسپورٹ و یوٹیلیٹی بلز، پینشن اور ہیلتھ بجٹ کے بڑے بڑے خرچے شامل ہیں۔ حکومتوں کی طرف سے تنخواہوں میں اضافہ کر دیا جاتا ہے اور یونیورسٹیوں کو خودمختار اداروں کے طور پر اس اضافے کے مساوی اضافی بجٹ نہیں دیا جاتا۔ بڑی یونیورسٹیوں کی بسوں کی فلیٹ پر ڈیزل اور مینٹیننس کے اخراجات بے تحاشا ہیں اور اسی طرح بجلی و گیس کے بلوں کا دباؤ بھی بڑھ رہا ہے۔ جن یونیورسٹیوں کے قیام کو کئی سال گزر چکے ہیں وہاں ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین کو بعد از ریٹائرمنٹ ملنے والی مراعات کو ادا کرنے کے لئے رقم نہیں ہے اور اس کے لئے ملازمین کو کئی کئی ماہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ پینشن کی ادائیگی جاری اخراجات میں سے کی جا رہی ہے کیونکہ بروقت پینشن فنڈز قائم کر کے انہیں پروفیشنل انداز میں نہیں چلایا گیا۔
اس مالی بحران سے نکلنے کے لئے یونیورسٹیوں کے پاس بظاہر دو ہی راستے ہیں۔ اول تو یہ کہ داخلوں میں اضافہ کیا جائے اور دوئم یہ کہ فیسوں کو بڑھایا جائے۔ ملک بھر کی جامعات کا ڈیٹا یہ ظاہر کرتا ہے کہ یونیورسٹیوں میں داخلے کم ہو رہے ہیں اور اس صورتحال میں فیسوں میں اضافہ عملی طور پر ناممکن ہے۔ ویسے بھی پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں جو طلباء داخلہ لیتے ہیں ان کی اکثریت فیسوں میں اضافے کی متحمل ہو ہی نہیں سکتی۔ کئی یونیورسٹیوں نے کچھ سال قبل سائنس اور انجینئرنگ کے شعبہ جات بھاری سرمایہ کاری کر کے اس امید پر قائم کئے تھے کہ اس سے آمدنی میں اضافہ ہوگا مگر یہ پالیسی سی سی این پالیسی کی طرح بیٹھ گئی اور صورتحال یہ ہے کہ کچھ یونیورسٹیوں کو چھوڑ کر انجینئرنگ کے اکثر شعبوں میں داخلے نہیں ہو رہے۔ اس وقت کمپیوٹر سائنس کے شعبہ جات، فارمیسی، قانون اور چند دیگر شعبہ جات میں داخلوں کے لئے بڑی تعداد میں درخواستیں موصول ہوتی ہیں۔
یونیورسٹیوں کی طرف سے داخلوں میں اضافے کی کوشش خسارے کی سرمایہ کاری کے مترادف ہے کہ اس سے وقتی طور پر فیسوں کی مد میں پیسے آ جاتے ہیں جس سے کیش فلو کا مسئلہ کسی حد تک حل ہو جاتا ہے۔ مگر لانگ ٹرم میں زیادہ داخلوں کا مطلب زیادہ خسارہ ہے کیونکہ سبسڈی کی مد میں زیادہ رقم خرچ ہو جاتی ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان میں اعلی تعلیم کے شعبے کے حوالے سے دو بنیادی باتوں پر غور کیا جائے۔ پہلی بات تو یہ کہ کسی بھی یونیورسٹی میں پڑھنے والے طالب علم کو ایک یونٹ تصور کر کے اس کی تعلیم پر اٹھنے والے جملہ اخراجات کا ٹھیک طریقے سے تعین کیا جائے۔ مثلا بی ایس کے لیول کا ایک طالب علم اگر بی ایس کیمسٹری کے پروگرام میں ہے تو یہ طے کیا جائے کہ اس طالب علم پر سالانہ کل کتنا خرچ اٹھتا ہے۔ اس خرچ میں اساتذہ کی تنخواہوں، یوٹیلیٹی بلوں، ٹرانسپورٹ، لیبارٹری وغیرہ سمیت ہر قسم کی مد کو شامل کیا جائے۔ اسی طرح بی ایس پولیٹیکل سائنس یا ایل ایل بی کے ایک طالب علم پر سالانہ کتنا خرچ ہوتا ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ فی یونٹ خرچ نکالا جائے تو یہ اس لئے ضروری ہے کہ دیکھا جائے کہ طلباء کی طرف سے دی گئی فیسوں کو ایڈجسٹ کر کے فی کس کتنی سبسڈی دی جا رہی ہے اور اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ کہ کیا یہ سبسڈی کی رقم ایک کم خرچ پروگرام میں پڑھنے والے طلباء سے دوسرے زیادہ خرچ والے پروگرام میں پڑھنے والے طلباء کے لئے تو نہیں لی جا رہی؟ جب تک ہمارے پاس اس لیول کا ڈیٹا نہیں ہو گا اس وقت تک کسی بھی پلاننگ سے خرچ کم کرنے کی بات کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ اسی ڈیٹا سے اس بات کا تعین بھی ہوگا کہ جو پروگرام تسلسل سے خسارے میں جا رہے ہیں اور ان کو جاری رکھنے کی کوئی معقول پالیسی لیول کی وجوہات نہیں ہیں تو انہیں جاری رکھنے کا کیا جواز باقی ہے؟
یہ درست ہے کہ یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے والے بہت سے پروگرام آمدن کے لئے شروع نہیں کئے جاتے مگر یہ بات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ اس قسم کے خسارے کے پروگراموں کو چلانے کے لئے کسی نہ کسی کو تو فنانس کرنا ہوگا۔ اگر حکومت نے اس حوالے سے ہاتھ کھینچ لیا ہے تو یہ واضح ہونا چاہیئے کہ اس طرح کے پروگراموں کو جاری رکھنے کے لئے سبسڈی کہاں سے آئے گی؟ اگر خسارے کے پروگرام کو جاری رکھنا کسی قومی سطح کی پالیسی کی ضرورت ہے تو حکومت کو اس طرح کے پروگراموں کی لازمی فنڈنگ کرنا ہوگی۔ اور اگر خسارے کے کسی پروگرام کو جاری رکھنا کسی یونیورسٹی کی اپنی پالیسی ہے تو پھر یونیورسٹی کی انتظامیہ کو اس کے لئے مالیاتی وسائل کا بندوبست کرنا چاہیئے جو کراس سبسڈی سے ممکن ہے مگر اس کے لئے ڈیٹا اور شفافیت لازمی شرائط ہیں۔
دوسری بات جس کے بارے میں ایچ ای سی، حکومت اور یونیورسٹیوں کو سر جوڑ کر سوچنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان میں اعلی تعلیم کی فنانسنگ کیسے ہونی ہے۔ حکومتی فنڈز تو کم ہوتے جا رہے ہیں اور پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیوں کو پرائیویٹ سیکٹر کی طرف سے بڑھتے ہوئے مقابلے کا سامنا ہے۔ اپنے انفراسٹرکچر کی وسعت، غیر ضروری عملے کی بھرمار، سسٹم کی غیر فعالیت سمیت کئی دوسرے مسائل کی وجہ سے پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کی viability ایک سنگین سوال بن کر سامنے آ چکا ہے۔ اگر طلباء کی فیسوں یا کسی تھرڈ پارٹی (مثلا بینک کے قرضوں) کے ذریعے اعلی تعلیم کی فنانسنگ کرنی ہے تو اس کے لئے پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کو اسٹریکچرل ریفارمز کے بے رحم پراسس سے گزرنا ہوگا جس کا لازمی مطلب رائیٹ سائزنگ اور ایفی شنسی کے قابل قبول معیارات کو اپنانے کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ بدقسمتی سے درجنوں وائس چانسلرز کانفرنسوں اور فورمز کاروائی دیکھنے کے بعد بھی آج تک ان سوالات کے عملی جوابات حل طلب ہیں۔ طلباء اصل اخراجات پر مبنی فیسوں کے بوجھ کو برداشت نہیں کر سکتے اور حکومت پیسے دیتی نہیں تو پھر یہ فنانسنگ کا گیپ کیسے ختم ہوگا؟ آخر کب تک ہم deficit financing کے ماڈل کے تحت وقت گزارتے رہیں گے؟

عزیزالرحمٰن