سوال (6299)
آپ نے اپنے دوست سے 5 مرلہ پلاٹ خریدا اور ساری رقم ادا کر دی، صرف 85,000 روپے باقی تھے۔
اس نے کوئی تحریر / رسید نہیں دی۔ 1.5 سال بعد اس نے وہی پلاٹ کسی اور کو فروخت کر دیا۔
آپ نے کہا: “بقایا لے کر میری رجسٹری کرواؤ” مگر اس نے گالیاں دیں اور کہا کہ: وہ خود آپ سے پلاٹ واپس خرید رہا ہے اور آپ کو اصل رقم + 2 لاکھ روپے اضافی دے گا کچھ ماہ بعد اس نے آپ کی اصل رقم واپس دے دی لیکن اب وہ اضافی 2 لاکھ روپے دینے سے انکار کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ: “یہ سود مانگ رہے ہو” آپ نے 3 تولہ سونا بیچ کر ادائیگی کی تھی، جب وعدہ ہوا تھا تو سونے کا ریٹ بڑھ چکا تھا۔
کیا وہ 2 لاکھ اضافی میری محنت/نقصان کا حق ہے یا سود ہے؟ اور کیا میں یہ رقم شرعاً لے سکتا ہوں؟
جواب
نجات صبر سے ہے، بہت سارے معاملات میں انسان بے بس ہوجاتا ہے، تو آپ کے ساتھ جو ہوا ہے، اس پر صبر کریں، پریشان نہ ہوں، اس کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کریں، آپ کی اصل رقم آپ کا حق ہے، بس چھوڑ دیں، ویسے بھی اگر سودا کینسل ہوتا ہے تو آپ بڑھا کر لینے کے حقدار بھی نہیں ہیں، بس آپ اللہ تعالیٰ کے لیے چھوڑ دیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سوال واضح نہیں ہے ۔ آپ نے اس کو جو 85 ہزار کم دئیے تھے کیا یہ بات سودے میں طے تھی کہ یہ اتنے عرصے بعد دے دوں گا اور پھر کیا آپ نے اتنے عرصے میں پھر وہ 85 کیا دے دئیے یہ جاننا ضروری ہے
کیونکہ جو سودے کی شرائط ہوتی ہے وہ جو فریق پوری نہ کرے تو دوسرا سواد توڑ سکتا ہے پس آپ نے کوئی شرط پوری نہ کی ہو تو وہ سودا کینسل کر سکتا تھا۔ اور اگر آپ نے کوئی شرط نہیں توڑی تو پھر وہ سودا کینسل نہیں کر سکتا۔ اگر وہ کرتا ہے تو جتنا آپ کو اس سودے کے کینسل سے نقصان ہوا وہ آپ اس سے لینے کا مکمل حق رکھتے ہیں اس کو سود بالکل نہیں کہیں گے۔
یہ نقصان فرض کریں اس طرح نکالا جا سکتا ہے کہ وہ پلاٹ آپ کا ہوتا تو بیچ کر کتنا پرافٹ ہوتا یا پھر اگر آپ نے جو سونا بیچا تھا وہ نہ بیچتے تو کتنا آپ کو آج فایدہ ہوتا۔ اتنا نقصان آپ لینے کا حق رکھتے ہیں۔
ہاں وہ مکر جاتا ہے تو پھر آخرت میں ملے گا۔ ان شااللہ
فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ




