قابل قدر قابل فخر اسلاف
روشنی کے مینار !
ھمارے ماضی کی یادوں کے دو خوشگوار جھونکے!
آج سہ پہر ھم ایک تنظیمی ذمہ داری کی ادائیگی کے لئے محدث العصر مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کی رھائشگاہ پہ گئے ھوئے تھے۔ فیصل آباد کے بزرگ عالم دین مولانا محمد یوسف انور اور محقق عالم مولانا صاحبزادہ برق التوحیدی صاحبان بھی شرکائے مجلس تھے۔ ایسی مجالس میں علم و حکمت کے موتیوں کی برسات رھتی ھے اور ھم جیسے طالبعلموں اور کارکنوں کو بہت خزانہ نصیب ھوجاتا ھے۔
دور حاضر کے روزمرہ مسائل پہ باتیں ھوتی رھیں، بزرگوں کی مجلس تھی اس لئے جو بھی بات شروع ھوتی، ھمارے لئے رھنمائی کا ھی سبب بنتی رھی۔ دور حاضر میں ھمارے درمیان رائج تصویر کا معاملہ اب قریبا قریبا متنازعہ نہیں رھا ھے۔ اگر کچھ بزرگ اختلاف بھی کرتے ھیں تو وہ تقوی کے باب میں احتیاط کرتے ھیں۔ اسی تصویر پہ بات شروع تھی تو محدث العصر حفظہ اللہ نے تقوی کی بات پہ ھی رائے دیتے ھوئے ھمارے ایک ملی بزرگ کا جو واقعہ سنایا، ھم اسے اپنے احباب سے شیئر کرنا چاھے ھیں۔ مولانا نے فرمایا کہ ” ھماری جماعت کے معروف واعظ، مناظر مولانا محمد رفیق مدنپوری رحمہ اللہ، مولانا محمد ابراھیم بھیڈیاں والے رحمہ اللہ کے والد محترم میاں جی مولوی سراج دین رحمہ اللہ، تصویر کے باب میں انتہائی محتاط رھتے تھے۔ ھم اپنی جیبوں میں تصاویر والے کرنسی نوٹوں کو مجبوری سمجھتے ھوئے جیبوں میں رکھ کر نمازیں پڑھنے کے روادار رھتے ھیں۔ مولانا فرماتے ھیں کہ ” میاں جی سراج دین مرحوم اپنی جیبوں میں کبھی بھی یہ تصویر والے، کاغذی نوٹ رکھتے ھی نہیں تھے، وہ اس فتنہ تصویر سے بچنے کے لئے اپنی جیب میں دھاتی سکے ھی رکھا کرتے تھے۔ ” اللہ اکبر، سبحان اللہ، ایسے تھے وہ بزرگ، احتیاط اور تقوی میں اتنے فکر مند!
مولانا محمد یوسف انور حفظہ اللہ، بلاشبہ فیصل آباد ھی نہیں بلکہ ملک بھر کی جماعت کے گنے چنے بزرگوں میں شمار ھوتے ھیں، آج کل کے واعظین و خطباء کے پروگرام رکھنے پہ اٹھنے والے اخراجات کی بات ھوئی تو مولانا یوسف انور صاحب فرمانے لگے کہ،
” ھم لوگ جمعیت شبان اھل حدیث کے زیر اھتمام دھوبی گھاٹ گراؤنڈ، لائلپور میں تین روزہ کانفرنس منعقد کروایا کرتے تھے۔ اس وقت عام رواج یہ تھا کہ مہمان خطباء کو کرایہ وغیرہ پیشگی ھی ارسال کر دیا جاتا تھا اور خط میں اطلاع دے دی جاتی تھی۔ مولانا کے بقول اس وقت لائلپور سے یہ لاھور، گوجرانوالہ کا بس کرایہ 2 روپے، ڈیڑھ روپے ھوتا تھا، ھم نے مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کو اس وقت دس روپے پیشگی کرایہ منی آرڈر ارسال کیا، تو وصولی کے اگلے ھی روز مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ نے ھمارے ارسال کردہ دس روپے واپس بھجوا دئے اور ساتھ خط بھی لکھا کہ ” مجھے کیا پتہ کہ میں کانفرنس میں پہنچ بھی پاونگا یا نہیں؟ لہذا میں پیشگی کرایہ خدمت وغیرہ وصول کرنا مناسب نہیں سمجھتا ھوں “۔
اللہ اکبر۔ اللہ اکبر، یہ تھے ھمارے آباء۔۔۔
دونوں واقعات سن کر ھم کوئی بات نہیں کرنا چاھتے ھیں، بات کریں بھی تو کس منہ سے کریں؟ ؟ ؟ صرف اپنے آپ اور اپنے دوستوں کو ان شخصیات کے پیش کردہ فریم زندگی میں دیکھنے کی طلب کرتے ھیں۔ باقی ھماری خوش نصیبی ھے کہ درج بالا دونوں بزرگوں کی صلبی اولاد میں سے مرحوم اول مولانا اسماعیل سلفی کے پوتے مولانا محمد أسعد سلفی (گوجرانوالہ) اور مرحوم ثانی میاں جی مولوی سراجدین کے پوتے مولانا حبیب الرحمن مدنپوری (فیصل آباد) صاحبان ھمارے درمیان موجود ھیں۔
کتنا مبارک وقت تھا کس قدر سادگی تھی جب اھل حدیثوں کے درمیان میاں جی مولوی سراج دین اور امام سلفیت مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہم اللہ اجمعین جیسے لوگ موجود تھے!جنکی جھود اورمساعی جمیلہ سے پورے پاکستان میں توحید وسنت کے نغمے پرسوز آواز میں پڑھے جاتے ہیں جنہوں نے مسلک محدثین کی ترویج و اشاعت میں ایسے سنہری نقوش چھوڑے جنکوتاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا اور نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔
اللہم اغفر لہم وارحمہم وارفع درجتھم ونور قبورھم وتقبل جھودھم اللھم احشرھم مع النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین واجمعہم فی جناتك يارب العالمين.
خادم العلم و العلماء
علامہ عبد الصمد معاذ عفی اللہ عنہ ولوالدیہ وغفراللہ لھم ولجمیع المسلمین
یہ بھی پڑھیں:سوشل میڈیا پر قربانی کی نمائش ایک افسوسناک رویہ