سوال (5166)
ایک مسئلہ کے سلسلے میں اہل علم کی آرا سے آگاہی چاہتا ہوں، لڑکے اور لڑکی کا نکاح ہو چکا ہے مگر رخصتی نہیں ہوئی لڑکا اپنے سسرال کے گھر آتا جاتا ہے تو کیا قبل از رخصتی دونوں خلوت اختیار کر سکتے ہیں؟
جواب
اگر نکاح شرائطِ شرعیہ کے مطابق مکمل ہو چکا ہے، یعنی: لڑکی کا ولی موجود تھا، ایجاب و قبول ہوا، دو عاقل بالغ گواہ موجود تھے، اور مہر کا تعین ہوا، تو شرعاً وہ عورت اس مرد کی بیوی بن چکی ہے، اور دونوں کے لیے آپس میں خلوت اور ہم بستری کرنا جائز اور مباح ہے، خواہ رخصتی ابھی نہ ہوئی ہو۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان:
وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمۡ أَن تَبۡتَغُواْ بِأَمۡوَٰلِكُم مُّحۡصِنِینَ غَيۡرَ مُسَٰفِحِينَ، (النساء: 24)
اور تمہارے لیے وہ عورتیں حلال ہیں جن کے ساتھ تم مال کے ذریعے نکاح کرو، قید (نکاح) میں رکھنے کی نیت سے نہ کہ صرف شہوت رانی کے لیے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:
“إذا نَكَحَ العبدُ فقد استكمَلَ نِصفَ الدِّينِ، فليتَّقِ اللَّهَ في النِّصفِ الباقي”(ترمذی: 3096)
جب بندہ نکاح کر لیتا ہے تو اس نے آدھا دین مکمل کر لیا۔ پس باقی آدھے دین کے بارے میں اللہ سے ڈرتا رہے۔
فتاویٰ اللجنة الدائمة (سعودیہ):
إذا تم العقد الصحيح، جاز للزوج أن يخلو بزوجته ويجامعها، ولو قبل الدخول الرسمي أو الزفاف، لأنها زوجته شرعاً.”
“جب نکاح صحیح طریقے سے ہو جائے تو شوہر کے لیے بیوی کے ساتھ خلوت و ہم بستری جائز ہے، اگرچہ ابھی باقاعدہ رخصتی نہ ہوئی ہو، کیونکہ وہ اس کی شرعی بیوی ہے۔”
شیخ ابن باز رحمہ اللہ: عقد نکاح کے بعد عورت مرد کے لیے حلال ہو جاتی ہے، چاہے رخصتی نہ ہوئی ہو۔ اگرچہ سماجی آداب کے لحاظ سے انتظار بہتر ہوتا ہے، مگر شرعی طور پر وہ بیوی ہے۔”
اگرچہ شرعاً اجازت ہے، لیکن ہمارا عرف اور معاشرہ یا اگر لڑکی کے والدین یا گھر والے واضح طور پر اجازت نہ دیں کہ لڑکا آ کر ملے یا تعلق قائم کرے، تو اخلاقی طور پر اس بات کا لحاظ رکھنا چاہیے۔
اگر گناہ میں پڑنے کا قوی اندیشہ ہو اور باہمی رضامندی بھی ہو، تو خلوت یا ہم بستری شرعاً جائز ہے۔
بہترین حل تو یہی ہے جلد از جلد رخصتی کا بندوبست کیا جائے تاکہ دونوں اطراف اطمینان اور عزت کے ساتھ اپنی ازدواجی زندگی شروع کر سکیں۔ اس پر فتوی مشائخ دیں گے یہ میری ذاتی رائے ہے۔
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ
شرعی نکاح کے بعد پردے اٹھ جاتے ہیں، ہر قسم کا تعلق بحال رکھا جا سکتا ہے، ہمارے معاشرے میں نکاح ہو بھی جائے تو ایک محدود دائرے میں زن و شو کر سکتے ہیں، لیکن صحبت نہیں کر سکتے، کیونکہ جب رخصتی ہوگی تو معلوم نہیں کیا پوزیشن ہوگی، رخصتی لینے میں کیا رکاوٹ ہے، رخصتی لے لیں، رخصتی کے بعد صحبت ہے، عرف کو نہ بگاڑیں، ورنہ ایک دوسرے کو سمجھانا مشکل ہو جائے گا۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
یہ ہمارا معاشرتی المیہ ہے، اور یہ کوئی چھوٹا نہیں بلکہ بہت بڑا المیہ ہے، کہ ہم لوگ بچوں کا نکاح کر دیتے ہیں، مگر رخصتی نہیں کرتے۔ اور جب پوچھا جاتا ہے کہ رخصتی کیوں نہیں کی،
تو وجہ بڑی عجیب و غریب بتائی جاتی ہے:
مثلاً: “لڑکی کے پھوپھی کے داماد کا تایا امریکہ سے آنا ہے، تو رخصتی اُس کے آنے پر کریں گے۔”
ایسے کئی کیسز ہمارے سامنے آئے ہیں۔
میں ایک واقعہ عرض کرتا ہوں: لاہور میں ایک مقدمہ سامنے آیا، کہ ایک لڑکے اور لڑکی کا نکاح کر دیا گیا، اور ان کو آپس میں فون پر بات کرنے کی اجازت بھی دے دی گئی،
مگر رخصتی مؤخر کر دی گئی — وہی وجہ جو اوپر بیان ہوئی۔
نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے ہوٹل میں کمرہ بک کروایا، اور وہاں خلوت اختیار کر لی۔
اب دونوں طرف سے والدین، بزرگ حضرات، پولیس لے کر وہاں پہنچ گئے۔
لڑکا تن کر کھڑا ہو گیا، اور پولیس انسپکٹر سے کہا:
“ان چاروں بزرگوں سے پوچھئے کہ ہمارا آپس میں کیا رشتہ ہے؟
کیا ہمارا نکاح نہیں ہوا؟
کیا ہمارا رشتہ حلال نہیں؟”
جب یہ سوال کیا گیا، تو انہوں نے کہا: “ہاں، ہم نے نکاح کیا ہے۔”
تو پھر اُس لڑکے نے انسپیکٹر کو جو جواب دیا، وہ میں یہاں نقل نہیں کر سکتا۔
جب نکاح ہو جائے تو خلوت جائز ہو جاتی ہے۔
اس لیے نکاح اور رخصتی میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔
اور اگر کسی شدید مجبوری کے تحت آپ تاخیر کر رہے ہیں،
اور اگر کسی شدید مجبوری کی وجہ سے تاخیر کرنی ہی ہو، تو پھر لڑکے اور لڑکی کو خلوت کا موقع ہرگز نہ دیں۔
ورنہ پھر حالات وہی ہوں گے جن کا میں نے تذکرہ کر دیا ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ