سوال (2580)
کیا قبرستان میں ہاتھ اٹھا کر دعا کر سکتے ہیں؟
جواب
دعا میں ہاتھ اٹھانا بہتر و افضل اور ثابت ہے۔
لہذا انفرادی طور پر جب چاہیں آپ ہاتھ اٹھا کر دعا کر سکتے ہیں اسی طرح قبرستان میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے پر بھی دلیل موجود ہے۔
دلائل ملاحظہ فرمائیں:
(1) ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻳﺰﻳﺪ، ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ اﻟﺘﻴﻤﻲ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻋﺜﻤﺎﻥ، ﻋﻦ ﺳﻠﻤﺎﻥ، ﻗﺎﻝ: ﺇﻥ اﻟﻠﻪ ﻟﻴﺴﺘﺤﻲ ﺃﻥ ﻳﺒﺴﻂ اﻟﻌﺒﺪ ﺇﻟﻴﻪ ﻳﺪﻳﻪ ﻳﺴﺄﻟﻪ ﻓﻴﻬﻤﺎ ﺧﻴﺮا، ﻓﻴﺮﺩﻫﻤﺎ ﺧﺎﺋﺒﺘﻴﻦ
[مسند أحمد بن حنبل : 23714 صحيح]
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻳﺰﻳﺪ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺻﺎﻟﺢ هو الدباغ ، ﺣﺪﺛﻨﻲ ﺃﺑﻮ ﻋﺜﻤﺎﻥ عن ﺳﻠﻤﺎﻥ ﻗﺎﻝ: ﺇﻥ اﻟﻠﻪ ﺣﻴﻲ ﻛﺮﻳﻢ ﻳﺴﺘﺤﻴﻲ ﻣﻦ ﻋﺒﺪﻩ ﺃﻥ ﻳﺮﻓﻊ ﻳﺪﻳﻪ ﺇﻟﻴﻪ ﻳﺪﻋﻮ، ﺛﻢ ﻳﺮﺩﻫﻤﺎ ﺻﻔﺮا، ﺃﻭ ﺧﺎﺋﺒﺘﻴﻦ
[الزهد لوكيع: 504 سنده صحيح]
یہ روایت مرفوع و موقوف دونوں طرح بیان ہوئی ہے لیکن علی الراجح اس کا موقوف ہونا ہی ہے تفصیل ہم نے مشکوۃ المصابیح کی تحقیق میں بیان کر رکھی ہے اور وہاں اس کے دیگر صحیح طرق بھی بیان کر دیے ہیں رب العالمین مجھے اس مبارک عمل کو مکمل کرنے کی توفیق دیں۔
مزید احادیث ملاحظہ فرمائیں جن میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کا ذکر ہے۔
(2) : سيدنا ابراهيم عليه السلام کا عمل مبارک
ﻓﺎﻧﻄﻠﻖ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺣﺘﻰ ﺇﺫا ﻛﺎﻥ ﻋﻨﺪ اﻟﺜﻨﻴﺔ ﺣﻴﺚ ﻻ ﻳﺮﻭﻧﻪ، اﺳﺘﻘﺒﻞ ﺑﻮﺟﻬﻪ اﻟﺒﻴﺖ، ﺛﻢ ﺩﻋﺎ ﺑﻬﺆﻻء اﻟﻜﻠﻤﺎﺕ، ﻭﺭﻓﻊ ﻳﺪﻳﻪ ﻓﻘﺎﻝ: ﺭﺏ {ﺇﻧﻲ ﺃﺳﻜﻨﺖ ﻣﻦ ﺫﺭﻳﺘﻲ ﺑﻮاﺩ ﻏﻴﺮ ﺫﻱ ﺯﺭﻉ ﻋﻨﺪ ﺑﻴﺘﻚ اﻟﻤﺤﺮﻡ} [ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ: 37] ﺣﺘﻰ ﺑﻠﻎ {ﻳﺸﻜﺮﻭﻥ}
[ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ: 37]
[صحیح البخاری : 3364]
(3) : ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻬﻤﺎ: ﺃﻧﻪ ﻛﺎﻥ ﻳﺮﻣﻲ اﻟﺠﻤﺮﺓ اﻟﺪﻧﻴﺎ ﺑﺴﺒﻊ ﺣﺼﻴﺎﺕ، ﻳﻜﺒﺮ ﻋﻠﻰ ﺇﺛﺮ ﻛﻞ ﺣﺼﺎﺓ، ﺛﻢ ﻳﺘﻘﺪﻡ ﺣﺘﻰ ﻳﺴﻬﻞ، ﻓﻴﻘﻮﻡ ﻣﺴﺘﻘﺒﻞ اﻟﻘﺒﻠﺔ، ﻓﻴﻘﻮﻡ ﻃﻮﻳﻼ، ﻭﻳﺪﻋﻮ ﻭيرفع ﻳﺪﻳﻪ، ﺛﻢ ﻳﺮﻣﻲ اﻟﻮﺳﻄﻰ، ﺛﻢ ﻳﺄﺧﺬ ﺫاﺕ اﻟﺸﻤﺎﻝ ﻓﻴﺴﺘﻬﻞ، ﻭﻳﻘﻮﻡ ﻣﺴﺘﻘﺒﻞ اﻟﻘﺒﻠﺔ، ﻓﻴﻘﻮﻡ ﻃﻮﻳﻼ، ﻭﻳﺪﻋﻮ ويرفع ﻳﺪﻳﻪ، ﻭﻳﻘﻮﻡ ﻃﻮﻳﻼ، ﺛﻢ ﻳﺮﻣﻲ ﺟﻤﺮﺓ ﺫاﺕ اﻟﻌﻘﺒﺔ ﻣﻦ ﺑﻄﻦ اﻟﻮاﺩﻱ، ﻭﻻ ﻳﻘﻒ ﻋﻨﺪﻫﺎ، ﺛﻢ ﻳﻨﺼﺮﻑ، ﻓﻴﻘﻮﻝ ﻫﻜﺬا ﺭﺃﻳﺖ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﻔﻌﻠﻪ
[صحیح البخاری : 1751،1752 ،1753]
(4) : سيدنا ابو موسى اشعرى کہتے ہیں :
ﻓﺪﺧﻠﺖ ﻋﻠﻰ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﻲ ﺑﻴﺘﻪ ﻋﻠﻰ ﺳﺮﻳﺮ ﻣﺮﻣﻞ ﻭﻋﻠﻴﻪ ﻓﺮاﺵ، ﻗﺪ ﺃﺛﺮ ﺭﻣﺎﻝ اﻟﺴﺮﻳﺮ ﺑﻈﻬﺮﻩ ﻭﺟﻨﺒﻴﻪ، ﻓﺄﺧﺒﺮﺗﻪ ﺑﺨﺒﺮﻧﺎ ﻭﺧﺒﺮ ﺃﺑﻲ ﻋﺎﻣﺮ، ﻭﻗﺎﻝ: ﻗﻞ ﻟﻪ اﺳﺘﻐﻔﺮ ﻟﻲ، ﻓﺪﻋﺎ ﺑﻤﺎء ﻓﺘﻮﺿﺄ، ﺛﻢ ﺭﻓﻊ ﻳﺪﻳﻪ ﻓﻘﺎﻝ: اﻟﻠﻬﻢ اﻏﻔﺮ ﻟﻌﺒﻴﺪ ﺃﺑﻲ ﻋﺎﻣﺮ ﻭﺭﺃﻳﺖ ﺑﻴﺎﺽ ﺇﺑﻄﻴﻪ، ﺛﻢ ﻗﺎﻝ: اﻟﻠﻬﻢ اﺟﻌﻠﻪ ﻳﻮﻡ اﻟﻘﻴﺎﻣﺔ ﻓﻮﻕ ﻛﺜﻴﺮ ﻣﻦ ﺧلقك ﻣﻦ اﻟﻨﺎﺱ ۔۔۔۔۔
[صحیح البخاری : 4323]
ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻣﻮﺳﻰ ، ﻗﺎﻝ: ﺩﻋﺎ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺑﻤﺎء ﻓﺘﻮﺿﺄ ﺑﻪ، ﺛﻢ ﺭﻓﻊ ﻳﺪﻳﻪ ﻓﻘﺎﻝ: اﻟﻠﻬﻢ اﻏﻔﺮ ﻟﻌﺒﻴﺪ ﺃﺑﻲ ﻋﺎﻣﺮ ﻭﺭﺃﻳﺖ ﺑﻴﺎﺽ ﺇﺑﻄﻴﻪ، ﻓﻘﺎﻝ: اﻟﻠﻬﻢ اﺟﻌﻠﻪ ﻳﻮﻡ اﻟﻘﻴﺎﻣﺔ ﻓﻮﻕ ﻛﺜﻴﺮ ﻣﻦ ﺧﻠﻘﻚ ﻣﻦ اﻟﻨﺎﺱ
[ایضا: 6383 وصحیح مسلم: 2498]
صحیح البخاری میں امام بخاری نے ﺑﺎﺏ ﺭﻓﻊ اﻷﻳﺪﻱ ﻓﻲ اﻟﺪﻋﺎء کے تحت دو رواتیں نقل کیں
(5) : ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ اﻟﻌﺎﺹ، ﺃﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﺗﻼ ﻗﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﻋﺰ ﻭﺟﻞ ﻓﻲ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ: {ﺭﺏ ﺇﻧﻬﻦ ﺃﺿﻠﻠﻦ ﻛﺜﻴﺮا ﻣﻦ اﻟﻨﺎﺱ ﻓﻤﻦ ﺗﺒﻌﻨﻲ ﻓﺈﻧﻪ ﻣﻨﻲ} [ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ: 36]
اﻵﻳﺔ، ﻭﻗﺎﻝ ﻋﻴﺴﻰ ﻋﻠﻴﻪ اﻟﺴﻼﻡ: {ﺇﻥ ﺗﻌﺬﺑﻬﻢ ﻓﺈﻧﻬﻢ ﻋﺒﺎﺩﻙ ﻭﺇﻥ ﺗﻐﻔﺮ ﻟﻬﻢ ﻓﺈﻧﻚ ﺃﻧﺖ اﻟﻌﺰﻳﺰ اﻟﺤﻜﻴﻢ} [ اﻟﻤﺎﺋﺪﺓ: 118]
، ﻓﺭﻓﻊ ﻳﺪﻳﻪ ﻭﻗﺎﻝ: اﻟﻠﻬﻢ ﺃﻣﺘﻲ ﺃﻣﺘﻲ، ﻭﺑﻜﻰ، ﻓﻘﺎﻝ اﻟﻠﻪ ﻋﺰ ﻭﺟﻞ: ﻳﺎ ﺟﺒﺮﻳﻞ اﺫﻫﺐ ﺇﻟﻰ ﻣﺤﻤﺪ، ﻭﺭﺑﻚ ﺃﻋﻠﻢ، ﻓﺴﻠﻪ ﻣﺎ ﻳﺒﻜﻴﻚ؟ ﻓﺄﺗﺎﻩ ﺟﺒﺮﻳﻞ ﻋﻠﻴﻪ اﻟﺼﻼﺓ ﻭاﻟﺴﻼﻡ، ﻓﺴﺄﻟﻪ ﻓﺄﺧﺒﺮﻩ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺑﻤﺎ ﻗﺎﻝ، ﻭﻫﻮ ﺃﻋﻠﻢ، ﻓﻘﺎﻝ اﻟﻠﻪ: ” ﻳﺎ ﺟﺒﺮﻳﻞ، اﺫﻫﺐ ﺇﻟﻰ ﻣﺤﻤﺪ، ﻓﻘﻞ: ﺇﻧﺎ ﺳﻨﺮﺿﻴﻚ ﻓﻲ ﺃﻣﺘﻚ، ﻭﻻ ﻧﺴﻮءﻙ
[صحیح مسلم : 202]
(6) : ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻛﺎﻥ ﺇﺫا ﺭﻣﻰ اﻟﺠﻤﺮﺓ اﻷﻭﻟﻰ اﻟﺘﻲ ﺗﻠﻲ اﻟﻤﺴﺠﺪ، ﺭﻣﺎﻫﺎ ﺑﺴﺒﻊ ﺣﺼﻴﺎﺕ، ﻳﻜﺒﺮ ﻣﻊ ﻛﻞ ﺣﺼﺎﺓ، ﺛﻢ ﻳﻘﻮﻡ ﺃﻣﺎﻣﻬﺎ، ﻓﻴﺴﺘﻘﺒﻞ اﻟﺒﻴﺖ ﺭاﻓﻌﺎ ﻳﺪﻳﻪ ﻳﺪﻋﻮ ، ﻭﻛﺎﻥ ﻳﻄﻴﻞ اﻟﻮﻗﻮﻑ، ﺛﻢ ﻳﺮﻣﻲ اﻟﺜﺎﻧﻴﺔ ﺑﺴﺒﻊ ﺣﺼﻴﺎﺕ ، ﻳﻜﺒﺮ ﻣﻊ ﻛﻞ ﺣﺼﺎﺓ، ﺛﻢ ﻳﻨﺼﺮﻑ ﺫاﺕ اﻟﻴﺴﺎﺭ ﺇﻟﻰ ﺑﻄﻦ اﻟﻮاﺩﻱ، ﻓﻴﻘﻒ، ﻭﻳﺴﺘﻘﺒﻞ اﻟﻘﺒﻠﺔ، ﺭاﻓﻌﺎ ﻳﺪﻳﻪ ﻳﺪﻋﻮ، ﺛﻢ ﻳﻤﻀﻲ ﺣﺘﻰ ﻳﺄﺗﻲ اﻟﺠﻤﺮﺓ ، اﻟﺘﻲ ﻋﻨﺪ اﻟﻌﻘﺒﺔ، ﻓﻴﺮﻣﻴﻬﺎ ﺑﺴﺒﻊ ﺣﺼﻴﺎﺕ، ﻳﻜﺒﺮ ﻋﻨﺪ ﻛﻞ ﺣﺼﺎﺓ، ﺛﻢ ﻳﻨﺼﺮﻑ ﻭﻻ ﻳﻘﻒ ” ﻗﺎﻝ اﻟﺰﻫﺮﻱ: ﺳﻤﻌﺖ ﺳﺎﻟﻤﺎ، ﻳﺤﺪﺙ ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ، ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺑﻤﺜﻞ ﻫﺬا ﻭﻛﺎﻥ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﻳﻔﻌﻞ ﻣﺜﻞ ﻫﺬا
[مسند أحمد بن حنبل : 6404 سنده صحيح]
دراصل یہ حدیث اوپر صحیح البخاری کے حوالے سے گزر چکی ہے۔
(7) : ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻗﺎﻝ: ﺟﺎء اﻟﻄﻔﻴﻞ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ اﻟﺪﻭﺳﻲ ﺇﻟﻰ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻓﻘﺎﻝ: ﺇﻥ ﺩﻭﺳﺎ ﻗﺪ ﻋﺼﺖ ﻭﺃﺑﺖ، ﻓﺎﺩﻉ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻬﻢ. ﻓﺎﺳﺘﻘﺒﻞ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ اﻟﻘﺒﻠﺔ، ﻭﺭﻓﻊ ﻳﺪﻳﻪ، ﻓﻘﺎﻝ اﻟﻨﺎﺱ: ﻫﻠﻜﻮا. ﻓﻘﺎﻝ: اﻟﻠﻬﻢ اﻫﺪ ﺩﻭﺳﺎ ﻭاﺋﺖ ﺑﻬﻢ، اﻟﻠﻬﻢ اﻫﺪ ﺩﻭﺳﺎ ﻭاﺋﺖ ﺑﻬﻢ
[مسند احمد : 7315 صحيح]
، ﻗﺎﻝ: ﺛﻢ ﺭﻓﻊ ﻳﺪﻳﻪ ﺇﻟﻰ اﻟﺴﻤﺎء ﻓﻘﺎﻝ: اﻟﻠﻬﻢ اﺷﻬﺪ ﻋﻠﻴﻬﻢ، اﻟﻠﻬﻢ اﺷﻬﺪ ﻋﻠﻴﻬﻢ ” ﺫﻛﺮ ﻣﺮاﺭا ﻓﻼ ﺃﺩﺭﻱ ﻛﻢ ﺫﻛﺮ
[مسند احمد : 20336]
(8) ﻋﻦ ﻋﺎﺋﺸﺔ ﻗﺎﻟﺖ: ﺩﺧﻞ ﻋﻠﻲ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺑﺄﺳﻴﺮ، ﻓﻠﻬﻮﺕ ﻋﻨﻪ، ﻓﺬﻫﺐ، ﻓﺠﺎء اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﻘﺎﻝ: ﻣﺎ ﻓﻌﻞ اﻷﺳﻴﺮ؟ ﻗﺎﻟﺖ: ﻟﻬﻮﺕ ﻋﻨﻪ ﻣﻊ اﻟﻨﺴﻮﺓ ﻓﺨﺮﺝ، ﻓﻘﺎﻝ: ﻣﺎ ﻟﻚ ﻗﻄﻊ اﻟﻠﻪ ﻳﺪﻙ، ﺃﻭ ﻳﺪﻳﻚ ، ﻓﺨﺮﺝ، ﻓﺂﺫﻥ ﺑﻪ اﻟﻨﺎﺱ، ﻓﻄﻠﺒﻮﻩ، ﻓﺠﺎءﻭا ﺑﻪ، ﻓﺪﺧﻞ ﻋﻠﻲ ﻭﺃﻧﺎ ﺃﻗﻠﺐ ﻳﺪﻱ ﻓﻘﺎﻝ: ﻣﺎ ﻟﻚ، ﺃﺟﻨﻨﺖ؟ ﻗﻠﺖ: ﺩﻋﻮﺕ ﻋﻠﻲ، ﻓﺄﻧﺎ ﺃﻗﻠﺐ ﻳﺪﻱ، ﺃﻧﻈﺮ ﺃﻳﻬﻤﺎ ﻳﻘﻄﻌﺎﻥ، ﻓﺤﻤﺪ اﻟﻠﻪ، ﻭﺃﺛﻨﻰ ﻋﻠﻴﻪ، ﻭﺭﻓﻊ ﻳﺪﻳﻪ ﻣﺪا، ﻭﻗﺎﻝ: اﻟﻠﻬﻢ ﺇﻧﻲ ﺑﺸﺮ، ﺃﻏﻀﺐ ﻛﻤﺎ ﻳﻐﻀﺐاﻟﺒﺸﺮ، ﻓﺄﻳﻤﺎ ﻣﺆﻣﻦ، ﺃﻭ ﻣﺆﻣﻨﺔ، ﺩﻋﻮﺕ ﻋﻠﻴﻪ، ﻓﺎﺟﻌﻠﻪ ﻟﻪ ﺯﻛﺎﺓ ﻭﻃﻬﻮﺭا
[مسند احمد: 24259 صحيح]
(9) : ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺴﺪﺩ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﻋﻮاﻧﺔ ﻋﻦ ﺳﻤﺎﻙ ﺑﻦ ﺣﺮﺏ ﻋﻦ ﻋﻜﺮﻣﺔ ﻋﻦ ﻋﺎﺋﺸﺔ ﺯﻋﻢ ﺃﻧﻪ ﺳﻤﻊ ﻣﻨﻬﺎ ﺃﻧﻬﺎ ﺭﺃﺕ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﻳﺪﻋﻮ ﺭاﻓﻌﺎ ﻳﺪﻳﻪ ﻳﻘﻮﻝ: «ﺇﻧﻤﺎ ﺃﻧﺎ ﺑﺸﺮ ﻓﻼ ﺗﻌﺎﻗﺒﻨﻲ ﺃﻳﻤﺎ ﺭﺟﻞ ﻣﻦ اﻟﻤﺆﻣﻨﻴﻦ ﺁﺫﻳﺘﻪ ﺃﻭ ﺷﺘﻤﺘﻪ ﻓﻼ ﺗﻌﺎﻗﺒﻨﻲ ﻓﻴﻪ
[جزء رفع اليدين: 85 سنده حسن لذاته]
(10) : ﻋﻦ ﻋﺎﺋﺸﺔ، ﺃﻧﻬﺎ ﻗﺎﻟﺖ: ﺧﺮﺝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺫاﺕ ﻟﻴﻠﺔ، ﻓﺄﺭﺳﻠﺖ ﺑﺮﻳﺮﺓ ﻓﻲ ﺃﺛﺮﻩ، ﻟﺘﻨﻈﺮ ﺃﻳﻦ ﺫﻫﺐ، ﻗﺎﻟﺖ: ﻓﺴﻠﻚ ﻧﺤﻮ ﺑﻘﻴﻊ اﻟﻐﺮﻗﺪ، ﻓﻮﻗﻒ ﻓﻲ ﺃﺩﻧﻰ اﻟﺒﻘﻴﻊ، ﺛﻢ ﺭﻓﻊ ﻳﺪﻳﻪ، ﺛﻢ اﻧﺼﺮﻑ ﻓﺮﺟﻌﺖ ﺇﻟﻲ ﺑﺮﻳﺮﺓ، ﻓﺄﺧﺒﺮﺗﻨﻲ، ﻓﻠﻤﺎ ﺃﺻﺒﺤﺖ ﺳﺄﻟﺘﻪ، ﻓﻘﻠﺖ: ﻳﺎ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ، ﺃﻳﻦ ﺧﺮﺟﺖ اﻟﻠﻴﻠﺔ؟ ﻗﺎﻝ: ﺑﻌﺜﺖ ﺇﻟﻰ ﺃﻫﻞ اﻟﺒﻘﻴﻊ ﻷﺻﻠﻲ ﻋﻠﻴﻬﻢ
[مسند احمد: 24612 سنده حسن لذاته]
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے مروی صحیح مسلم کی روایت کے الفاظ ہیں
ﺣﺘﻰ ﺟﺎء اﻟﺒﻘﻴﻊ ﻓﻘﺎﻡ، ﻓﺄﻃﺎﻝ اﻟﻘﻴﺎﻡ، ﺛﻢ ﺭﻓﻊ ﻳﺪﻳﻪ ﺛﻼﺙ ﻣﺮاﺕ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ﻓﻘﺎﻝ: ﺇﻥ ﺭﺑﻚ ﻳﺄﻣﺮﻙ ﺃﻥ ﺗﺄﺗﻲ ﺃﻫﻞ اﻟﺒﻘﻴﻊ ﻓﺘﺴﺘﻐﻔﺮ ﻟﻬﻢ ، ﻗﺎﻟﺖ: ﻗﻠﺖ: ﻛﻴﻒ ﺃﻗﻮﻝ ﻟﻬﻢ ﻳﺎ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ؟ ﻗﺎﻝ ” ﻗﻮﻟﻲ: اﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﻰ ﺃﻫﻞ اﻟﺪﻳﺎﺭ ﻣﻦ اﻟﻤﺆﻣﻨﻴﻦ ﻭاﻟﻤﺴﻠﻤﻴﻦ، ﻭﻳﺮﺣﻢ اﻟﻠﻪ اﻟﻤﺴﺘﻘﺪﻣﻴﻦ ﻣﻨﺎ ﻭاﻟﻤﺴﺘﺄﺧﺮﻳﻦ، ﻭﺇﻧﺎ ﺇﻥ ﺷﺎء اﻟﻠﻪ ﺑﻜﻢ للاﺣﻘﻮﻥ
ان صحیح احادیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ قبرستان میں اور غیر قبرستان میں ہاتھ اٹھا کر میت اور اپنے لیے دعا کرنا جائز ہے اور ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا بہتر وافضل ہے ۔البتہ اس سے مروجہ پھوڑی پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا سنت سے ثابت نہیں بلکہ بدعت ہے اسی کی مثل دوسرے خاص مواقع ہیں
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
باقی مولانا جرجیس صاحب نے جو قبرستان میں دعا میں ہاتھ اٹھانے کے ثابت نہ ہونے کی بات کی ہے یہ خطاء پر مبنی ہے۔ ممکن ہے فی الوقت ان کے علم میں حدیث مبارک نہیں ہو یا اب تک نظر سے نہیں گزری ہو۔ بہرحال ساتھ میں میرے علم کے مطابق کہہ دینا چاہیے ہے ایسے مسئلہ میں، تفصیل ہم نے تحریر کی صورت میں لکھ کر بھیج دی ہے اسے مطالعہ کریں۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ