سوال (642)

قبروں پر تعارف کے لیے کتبے لکھوانا جائز ہے ؟

جواب

شیخ ابن عثیمین نے علامت کے طور پر صرف نام لکھنا جائز قرار دیا ہے۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

بسم اللہ۔۔ یہ فتوی محل نظر ہے ۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت کے ساتھ اس سے منع فرمایا ہے۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

جائز نہیں ہے نبی علیہ السلام نے قبر پر لکھنے سے منع فرمایا ہے ۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُجَصَّصَ الْقُبُورُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ يُكْتَبَ عَلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ يُبْنَى عَلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ تُوطَأَ” [سنن الترمذي : 1052]

«نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ قبریں پختہ کی جائیں ، ان پر لکھا جائے اور ان پر عمارت بنائی جائے اور انہیں روندا جائے ۔

فضیلۃ الباحث واجد اقبال حفظہ اللہ

قال الشيخ ابن عثيمين رحمه الله : ” والكتابة عليه فيها تفصيل : الكتابة التي لا يُراد بها إلا إثبات الاسم للدلالة على القبر ، فهذه لا بأس بها ، وأما الكتابة التي تشبه ما كانوا يفعلونه في الجاهلية يكتب اسم الشخص ويكتب الثناء عليه ، وأنه فعل كذا وكذا وغيره من المديح أو تكتب الأبيات ۔فهذا حرام .
ومن هذا ما يفعله بعض الجهال أنه يكتب على الحجر الموضوع على القبر سورة الفاتحة مثلا ..أو غيرها من الآيات فكل هذا حرام وعلى من رآه في المقبرة أن يزيل هذا الحجر ، لأن هذا من المنكر الذي يجب تغييره . والله الموفق ” انتهى من شرح ” رياض الصالحين

فضیلۃ الباحث طلحہ ارشاد حفظہ اللہ

اس استثناء کی دلیل ؟
نهي رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يكتب عليه کیا یہ عام نہیں ؟

فضیلۃ الباحث واجد اقبال حفظہ اللہ

شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کے نزدیک یہ استثناء صرف معرفت کے لیے ہے کہ یہ قبر فلاں شخصیت کی ہے۔

أظن استدل برواية ابى داؤد الذى فيه أن النبي صلى الله عليه وسلم وضع صخرة عند رأس عثمان بن مظعون . باقی واللہ اعلم ۔

لیکن ایک قول یہ بھی سامنے آیا ہے کہ جب کتابت کے علاوہ کسی چیز سے معرفت ممکن ہو تو پھر اس پر اکتفاء کریں کتابت نہ کریں

فضیلۃ الباحث طلحہ ارشاد حفظہ اللہ

اور بعض علاقوں کے قبرستانوں میں قبر پر علامت کے طور پر نام لکھنا ضروری بھی ہوتا ہے ،ورنہ وہ پیچھے سے قبر غائب کر دیتے ہیں اور کسی اور کو دے دیتے ہیں ۔

فضیلۃ العالم شہریار آصف حفظہ اللہ

ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ کتابت علی القبر ممنوع ہے۔ اگر قبر سے الگ کوئی دیوار وغیرہ بنا کر اس پر نام لکھا جائے تو وہ علی القبر کے حکم سے خارج ہے ، دوسرا استثنا یہ ہے کہ حدیث میں جس کتابت کا ذکر ہے، اس سے مراد دور جاہلیت کا طرز کتابت ہے۔
تفصیلی فتویٰ شیخ ابن عثیمین کے فتاویٰ میں موجود ہے جس میں یہ دونوں توجیہیں مذکور ہیں۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

كتابة اسم المتوفَّى على القبر لتعليمه ومعرفته جائزة ؛ كما يجوز أن يوضع على القبر علامةٌ من حجرٍ أو خشبٍ أو عودٍ أو غير ذلك؛ لِمَا روى أبو داود في “السنن” من حديث كَثِيرِ بْنِ زَيْدٍ الْمَدَنِيِّ، عَنْ الْمُطَّلِبِ قَالَ: لَمَّا مَاتَ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ رضي الله عنه أُخْرِجَ بِجَنَازَتِهِ.

فضیلۃ الباحث طلحہ علوی حفظہ اللہ