سوال (2546)

بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور “یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم” آگیا ہے اور ایک روشن کتاب “یعنی قرآن مجید” ہے۔
شیخ صاحب یہ بتائیں کہ کیا یہ حدیث ہے یا آیت ہے؟ وضاحت فرمائیں۔

جواب

قرآن کریم کی آیت ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:

قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ

بے شک تمھارے پاس الله کی طرف سے ایک روشنی اور واضح کتاب آئی ہے۔ جس کے ساتھ اللہ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے پیچھے چلیں، سلامتی کے راستوں کی ہدایت دیتا ہے اور انھیں اپنے حکم سے اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے اور انھیں سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتا ہے۔
[سورۃ المائدہ: 15، 16]
قرآن کریم کی سب سے بہتر و افضل تفسیر قرآن کریم کی قرآن کریم کے ساتھ تفسیر و تشریح ہے، آپ رب العالمین کے ارشاد پر غور کریں کہ یہاں نور اور کتاب دو الگ چیزیں نہیں ہیں اگر الگ ہوتیں تو آگے رب العالمین یوں فرماتے

“یهْدِي بهما اللَّهُ”

یعنی ان دونوں کے ساتھ ہدایت دیتے ہیں، رب کریم نے تثنیہ کی بجائے واحد کا صیغہ استعمال فرمایا ہے،

“يَهْدِي بِهِ اللَّهُ”

جس کے ساتھ الله ہدایت دیتے ہیں۔
مفسر قرآن علامہ حافظ صلاح الدین یوسف رحمه الله تعالى لکھتے ہیں:

نُورٌ اور كِتَابٌ مُبِينٌ

دونوں سے مراد قرآن کریم ہے ان کے درمیان ”واو“، مغایرت مصداق نہیں مغایرت معنی کے لئے ہے اور یہ عطف تفسیری ہے جس کی واضح دلیل قرآن کریم کی اگلی آیت ہے جس میں کہا جا رہا ہے

”يَهْدِي بِهِ اللهُ“

(کہ اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ہدایت فرماتا ہے) اگر نور اور کتاب یہ دو الگ الگ چیزیں ہوتیں تو الفاظ

”يَهْدِي بِهِمَا اللهُ“

ہوتے (یعنی اللہ تعالیٰ ان دونوں کے ذریعے سے ہدایت فرماتا ہے) قرآن کریم کی اس نص سے واضح ہوگیا کہ نور اور کتاب مبین دونوں سے مراد ایک ہی چیز یعنی قرآن کریم ہے۔ یہ نہیں ہے کہ نور سے آنحضرت (ﷺ) اور کتاب سے قرآن مجید مراد ہے۔ جیسا کہ وہ اہل بدعت باور کراتے ہیں جنہوں نے نبی کریم (ﷺ) کی بابت

”نُورٌ مِنْ نُورِ اللهِ“

کا عقیدہ گھڑ رکھا ہے۔ اور آپ (ﷺ) کی بشریت کا انکار کرتے ہیں۔ اسی طرح اس خانہ ساز عقیدے کے اثبات کے لئے ایک حدیث بھی بیان کرتے ہیں کہ اللہ نے سب سے پہلے نبی (ﷺ) کا نور پیدا کیا اور پھر اس نور سے ساری کائنات پیدا کی۔ حالانکہ یہ حدیث، حدیث کے کسی بھی مستند مجموعے میں موجود نہیں ہے علاوہ ازیں یہ اس صحیح حدیث کے بھی خلاف ہے جس میں نبی (ﷺ) نے فرمایا کہ ”سب سے پہلے قلم پیدا فرمایا

[ إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللهُ الْقَلَمُ ]

یہ روایت ترمذی اور ابوداود میں ہے۔ محدث البانی لکھتے ہیں:

فَالْحَدِيثُ صَحِيحٌ بِلا رَيبٍ وَهُو من الأَدِلَّةِ الظَّاهِرَةِ عَلَى بُطْلانِ الْحَدِيثِ الْمَشْهُورِ [ أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللهُ نُور نَبِيِّكَ يَا جَابِرُ ] (تعليقات المشكاة جلد 1 ص 34)

مشہور حدیث جابر کہ ”اللہ نے سب سے پہلے تیرے نبی کا نور پیدا کیا“، باطل ہے۔ خلاصہ ترجمہ
[تفسیر أحسن البیان تفسیر سورۃ المائدہ]
مفسر قرآن، شارح صحیح البخاری حافظ عبدالسلام بن محمد بھٹوی رحمه الله تعالى
اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِيْنٌ:

نور سے مراد اﷲ تعالیٰ کی کتاب ہی ہے۔ واؤ عاطفہ دونوں کو الگ الگ بتانے کے لیے نہیں بلکہ تفسیر کے لیے ہے، یعنی کتاب مبین اس نور کی تفسیر ہے، جس کی واضح دلیل ایک تو اس سے بعد والی یہ آیت ہے:

﴿ يَهْدِيْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ ﴾

یعنی جس کے ساتھ اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے پیچھے چلیں، سلامتی کے راستوں کی ہدایت دیتا ہے۔ اب اس آیت میں اگر نور اور کتاب مبین الگ الگ چیزیں ہوتیں تو الفاظ

’’ يَهْدِيْ بِهِمَا اللّٰهُ ‘‘

(اﷲ ان دونوں کے ساتھ ہدایت دیتا ہے) ہوتے۔ دوسری جگہ خود ﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید کو نور قرار دیا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا:

﴿فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ [الأعراف : ۱۵۷ ]

’’سو وہ لوگ جو اس رسول پر ایمان لائے اور اسے قوت دی اور اس کی مدد کی اور اس نور کی پیروی کی جو اس کے ساتھ اتارا گیا، وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘ معلوم ہوا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اترنے والی کتاب ہی نور ہے۔ اسی طرح فرمایا:

﴿فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ النُّوْرِ الَّذِيْۤ اَنْزَلْنَا ﴾ [ التغابن: ۸ ]

’’سو تم اﷲ اور اس کے رسول اور اس نور پر ایمان لاؤ جو ہم نے نازل کیا۔‘‘ قرآن مجید کے لیے نور کا لفظ سورۂ نساء اور دوسرے مقامات میں بھی آیا ہے، فرمایا:

﴿يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَيْكُمْ نُوْرًا مُّبِيْنًا ﴾ [ النساء : ۱۷۴ ]

’’اے لوگو! بلاشبہ تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے ایک واضح دلیل آئی ہے اور ہم نے تمھاری طرف ایک واضح نور نازل کیا ہے
بعض مفسرین نے نور سے مراد رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور کتاب مبین سے مراد قرآن مجید لیا ہے۔ اس صورت میں بھی معنی یہ ہو گا کہ اﷲ کی طرف سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روشنی بن کر اور قرآن ایک کتاب مبین بن کر آئے ہیں، جس کے ساتھ اﷲ تعالیٰ ہدایت دیتا ہے، یعنی آپ ایک تو ہدایت کا نور ہیں، دوسرا

’’ نُوْرٌ مِنَ اللهِ ‘‘

یعنی اﷲ کی طرف سے آنے والے نور ہیں جو اﷲ کی مخلوق ہیں نہ کہ

’’ نُوْرٌ مِنْ نُوْرِ اللهِ ‘‘

یعنی اﷲ کے نور میں سے نور کا ایک ٹکڑا ہیں کہ اﷲ کا حصہ ہوں یا خود ہی اﷲ ہوں۔ یہ تو وہی نصرانیوں والا عقیدہ ہے کہ انھوں نے مسیح علیہ السلام کو اﷲ کا بیٹا بنایا اور ان حضرات نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو اﷲ کا ٹکڑا بنا دیا۔ سورۂ اخلاص اس گندے اور شرکیہ عقیدے کی خوب تردید کرتی ہے
[تفسير القرآن الكريم ،تفسیر سورۃ المائدہ:15، 16]
اہل بدعت کا یہاں نور سے وہ باطل معنی مراد لینا جو سلف صالحین میں سے کسی نے نہیں لیا نہ خود رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے بیان فرمایا سراسر غلط اور ظلم ہے اور افتراء کے ساتھ فطرت رب العالمین کا انکار ہے۔

هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ