سوال (2537)

کیا قادیانیوں کے ہاسپیٹل سے دوائی لی جاسکتی ہے؟

جواب

پہلے کوئی اور ہاسپیٹل یا کلینک ہو تو اس کو ترجیح دیں، کوئی بھی صورت نہ بننے پر مجبوراً جواز دیا جا سکتا ہے، مجبوری کے احکام الگ ہوتے ہیں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔

“فَمَنِ اضۡطُرَّ غَيۡرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَيۡهِ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ” [سورة البقرة: 173]

«پھر جو مجبور کر دیا جائے، اس حال میں کہ نہ بغاوت کرنے والا ہو اور نہ حد سے گزرنے والا تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ بے شک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے»
مجبوری کی صورت میں ایسے مردود لوگوں سے دوا لی جا سکتی ہے، کیونکہ جان بچانا فرض ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

جہاں عقیدہ وایمان خراب ہونے یا اس سے محروم ہونے کا امکان غالب ہو تو وہاں جانا بھی ہلاکت کا باعث ہے کیونکہ یہ ان کا بنیادی حدف ہوتا ہے۔ علاج ہمیشہ مسلم معالج سے کروائیں کیونکہ کرسچن، قادیانی اپنے عقیدہ کے مطابق توکل رکھتے ہیں، میں 2007 میں ایک کرسچن ڈاکٹر کے پاس علاج کے لیے چلا گیا تو کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے مجھے کہا السام عليكم کہ تم پر ہلاکت ہو تو بتائیے ایسے معالج سے جو تمہارے خیر خواہ نہیں، جس کا عقیدہ و ایمان ہی باطل پر ہے، وہ کیسے تمہارا اخلاص کے ساتھ علاج کر سکتا ہے۔
خیر اہل کتاب سے بھی جب مسلم ڈاکٹر موجود نہیں یا اس بیماری کے ماہرین ڈاکٹر موجود نہیں یا اس کے ہم پلہ نہیں تو تب بامر مجبوری و اکراہ کے علاج کروایا جا سکتا ہے، رہے قادیانی تو ان سے ہر صورت بچنا ضروری ہے کیونکہ یہ مرتد ہیں اور ہمیشہ اہل اسلام کو مرتد بنانے کی کوشش میں رہتے ہیں اور مواقع تلاش کرتے ہیں۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

اگر اس طرح کی قید لگائیں گے تو پھر مسلمانوں میں سے اہل عقیدہ ہی کی بات کی جائے گی، پھر منھجی اہل عقیدہ کی بات ہوگی، لہذا بہتر یہی ہے کہ مسلمان کو ترجیح دی جائے اور اگر مسلمان نہ ملے تو پھر غیر مسلم کسی سے بھی علاج کروایا جا سکتا ہے، پاکستان کے مختلف ہسپتالوں میں عیسائی ہندو یہودی قادیانی اور شیعہ بہت بڑی تعداد میں بطور ڈاکٹرز موجودہیں۔

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ

دکتور محترم یہاں عقیدہ کی بات قادیانی باطل مذہب کا شکار ہونے کی وجہ سے کی
یہ دین اسلام میں ناپختہ لوگوں کو ٹارگٹ کرتے ہیں، اس لیے ان سے ہر جگہ دور رہیں تو اسی میں عافیت ہے۔
بارك الله فيكم

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ