“قائد ہو تو علامہ حافظ ابتسام الٰہی ظہیر جیسا”
قیادت کوئی معمولی ذمہ داری نہیں، یہ امانت بھی ہے، امتحان بھی اور امت کی رہنمائی کا ایک عظیم منصب بھی۔ ہر دور میں کچھ شخصیات ایسی پیدا ہوتی ہیں جو علم و عمل، تقویٰ و بصیرت، اور جرأت و حکمت کا حسین امتزاج بن کر ابھرتی ہیں۔ اگر آج ہم کسی ایسی شخصیت کو دیکھنا چاہیں جس نے دعوت، خطابت، مباہلہ، تحریر، سیاست، اور قیادت کے ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہو تو وہ بلا شبہ قائدِ محترم علامہ حافظ ابتسام الٰہی ظہیر حفظہ اللہ کی ذات ہے۔
قائدِ محترم علامہ حافظ ابتسام الٰہی ظہیر ایک عظیم علمی و فکری ورثے کے وارث ہیں۔ ان کے والد محترم گرامی، شہیدِ عالمِ اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید رحمہ اللہ کا نام علمی دنیا میں جگمگاتا ستارہ ہے۔ لیکن قائدِ محترم نے صرف وراثت پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اپنی ذاتی محنت، علم دوستی، اور دینی خدمات سے خود کو ایک مستقل اور نمایاں مقام دلایا۔ ان کی شخصیت اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ قیادت صرف نسبت کا نام نہیں، بلکہ کردار، قربانی اور مسلسل جدوجہد کا تقاضا کرتی ہے۔
قائدِ محترم علامہ حافظ ابتسام الٰہی ظہیر صاحب نے قرآن و سنت کی روشنی میں حق کی آواز بلند کی۔ ان کی تقاریر عوام کے دلوں میں روشنی بکھیرتی ہیں تو مباہلے کی للکار اہلِ باطل کے دلوں پر لرزہ طاری کرتے ہیں۔ ان کی علمی گفتگو میں دلیل، تحقیق، اور اعتدال کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ وہ فرقہ واریت کے خول میں بند نہیں، بلکہ امت کی وحدت اور اصلاح کے داعی ہیں۔
قائدِ محترم علامہ حافظ ابتسام الٰہی ظہیر کی قیادت کی ایک نمایاں خوبی ان کی جرأت اور حق گوئی ہے۔ وہ باطل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں، چاہے وہ سیاسی ایوان ہوں، میڈیا کے فورمز ہوں یا عوامی اجتماعات۔ ان کی گفتگو نہ صرف مدلل ہوتی ہے بلکہ پُراثر بھی، جو سننے والے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
ایک اچھے قائد و لیڈر کا کام صرف نعرے لگانا یا جلسے کرنا نہیں ہوتا، بلکہ وہ معاشرے کی اصلاح، امت کی تربیت اور نوجوانوں کی رہنمائی میں بھی کردار ادا کرتا ہے۔ قائدِ محترم علامہ حافظ ابتسام الٰہی ظہیر اصلاحی لیکچرز، دروس، اور سوشل میڈیا کے ذریعے جدید طبقے تک پہنچ کر ایک فکری انقلاب برپا کر رہے ہیں۔ وہ نوجوانوں کو فتنوں سے بچا کر انہیں کتاب و سنت کی طرف بلاتے ہیں۔
قائدِ محترم علامہ حافظ ابتسام الٰہی ظہیر نے نہ صرف دینی میدان میں خدمات انجام دیں بلکہ وہ سیاست میں بھی حق کی نمائندگی کرتے رہے۔ ان کی سیاست دین پر مبنی ہے، نہ کہ مفادات پر۔ وہ امت کو فرقہ واریت کے خول سے نکال کر کتاب و سنت کی طرف بلاتے ہیں اور “اہل حدیث” مکتب فکر کی علمی اور فکری اساس کو عزت و وقار عطا کرتے ہیں۔
اگر آج امت مسلمہ ایسے رہنماؤں کی تلاش میں ہے جو علم، اخلاص، جرأت، حکمت، اور بصیرت کے پیکر ہوں تو ہمیں قائدِ محترم علامہ حافظ ابتسام الٰہی ظہیر جیسے قائد کی قدر کرنی چاہیے۔ ان کی خدمات، کردار، اور قیادت یقیناً اس بات کا اعلان ہے کہ:
” قائد ہو تو علامہ حافظ ابتسام الٰہی ظہیر جیسا”
یاسر مسعود بھٹی
خادمُ العلم والعلماء