قاری محمد یحییٰ رسولنگری رحمہ اللہ کا مختصر تعارف

وما دام العلم باقياً في الأرض فالناس في هدى، وبقاء العلم بقاء حملته،فإذا ذهب حملته ومن يقوم به وقع الناس في الضلال

جب تک علم باقی ہے تب تک لوگ ہدایت پے رہیں گے اور علم کی بقاء حاملین علم (علماء) کے باقی رہنے سے ہے
جب علماء اور علم کے ساتھ کھڑے رہنے والے لوگ چلے جائیں گے (فوت ہو جائینگے) تب تمام لوگ گمراہی میں مبتلا ہوجائیں گے۔”

شیخ القراء قاری محمد یحییٰ رسولنگری رحمہ اللہ (مدیر: جامعہ عزیزیہ ساہیوال) کامختصر تعارف

شیخ القراء قاری محمد یحییٰ رسولنگری رحمہ اللہ اہل حدیث مکتبہ فکر میں علم تجوید وقرأت کے بانی اساتذہ میں سے تھے۔آپ کی شخصیت کا امتیاز ہے کہ شیخ القراء قاری محمد ابراہیم میرمحمدی حفظہ اللہ اور شیخ القراء قاری محمود الحسن بڈھیمالوی صاحب، امام کعبہ الشیخ عبداللہ سعود الشریم جیسی شخصیات کے اساتذہ میں سے ہیں۔ان کے تلامذہ پوری دنیا میں تجوید وقراءت کے علوم کی روشنی پھیلارہے ہیں۔ آپ قرآن کی دنیا میں بابائے قرأت کے نام سے جانے جاتے تھے۔
انتہائی نمایاں مقام پر فائز ہونے کے باوجود طبعی اعتبار سے انتہائی متواضع اوررقیق القلب انسان تھے۔
جامعہ عزیزیہ دارالقراء ساہیوال میں 1970ء سے وابستہ تھے۔ جہاں انہوں نے عرصہ پچاس سال سے تجوید وقرات کے علوم کی تدریس کی۔

نام

محمد یحییٰ بن نور اللہ رحمہ اللہ ہے۔

پیدائش

1945ء میں ہندوستان کے ضلع فیروزپور کے قصبہ کوٹ کپورہ میں اپنے ننھیال کے ہاں پیدا ہوئے۔

آبائی گاؤں

شیخ محترم کاآبائی گاؤں 15-1R رسول نگر ہے جو اوکاڑہ سے تقریباً 20 کلومیٹر شمالی جانب واقع ہے۔(فیروزپور میں ان کے ننھیال رہتے تھے)۔

ابتدائی تعلیم

شیخ محترم نے اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز اپنے گاؤں سے ہی کیاتھا ۔وہاں سے پرائمری کی اور اس کے بعد چھٹی کلاس کے لئے اپنے گاؤں کے قریب ستگھرہ کے مقام پرہائی سکول میں داخلہ لیا۔وہاں یونیفارم نیکر اور شرٹ تھی جو پی ٹی کے اصرار کے باوجود انہوں نے نہیں پہنا کیونکہ اس میں ستر ننگا ہوتا تھا اس غیر شرعی فعل کی بناء پرشیخ رسولنگری صاحب نے سکول کو خیر آباد کہنا بہتر سمجھا۔

دینی تعلیم کا آغاز

شیخ محترم نے دینی تعلیم کاآغازاپنے گاؤں کے قریب مولانا حافظ عبدالرزاق صاحب کے مدرسہ جامعہ اسلامیہ سے کیا جو کہ علاقہ میں درس ڈھلیانہ کے نام سے معروف ہے۔ وہاں حضرت حافظ صاحب کے ہاں حفظ شروع کیا۔ حافظ صاحب چونکہ طبعاً کافی سخت تھے اس لیے وہاں ان کے پاس زیادہ دیر تعلیم جاری نہ رکھ سکے ۔ آٹھ پارے حفظ کرنے کے بعد وہاں سے چھوڑدیا۔ بعد ازاں چک نمبر16 جی ڈی مدوکا میں حضرت پیرجماعت علی شاہ رحمہ اللہ کے ہاں گے، لیکن وہاں سختی کا یہ عالم تھا کہ باقاعدہ سزادینے کے لیے ایک آدمی رکھاہوا تھا لہٰذا وہاں بھی ممدوح کوٹھہرنانصیب نہ ہوا۔بالآخر جامعہ عثمانیہ جامع مسجد گول چوک اوکاڑہ میں حضرت مولانا قاری فاروق رحمہ اللہ کے ہاں حفظ مکمل کیا۔ حفظ کے بعد ان کے چچا حاجی عبداللہ صاحب، شیخ رسولنگری رحمہ اللہ کو حضرت شیخ القراء مولاناقاری اظہاراحمدرحمہ اللہ کے پاس چینیانوالی مسجد میں داخل کراآئے۔ وہاں انہوں نے قاری صاحب رحمہ اللہ کے پاس 1961ء سے1963 میں تجوید مکمل کی۔

درس نظامی کا آغاز

1963ء میں چینیانوالی مسجد سے فارغ ہونے کے بعد درسِ نظامی کاآغاز کیا سب سے پہلے1963ء کے آخری اَیام اور 1964ء کے ابتدائی ایام میں جامعہ اہل حدیث قدس، چوک دالگراں میں داخل ہوئے۔

اساتذہ کرام

یہاں اساتذہ میں سے
حافظ عبد الرحمن مدنی صاحب،
مولاناعبد الحق رحمہ اللہ صاحب،
مولانا محمد حسین رحمہ اللہ تھے۔
شیخ محترم نے انہیں سے بنیادی کتابیں پڑھیں ہیں۔ حافظ عبد الرحمن مدنی صاحب اس وقت نحو وصرف میں مشہورتھے۔ چونکہ ان کے والد مولانا حافظ محمدحسین صاحب بڑے عالم تھے اورنحو وصرف میں ید طولہ رکھتے تھے، اس لیے یہ بھی اس میدان میں یکتا روزگار تھے۔ اس وقت جماعت میں دو عالم ہی معروف تھے حافظ محمد حسین روپڑی رحمہ اللہ اورمولاناعطاء اللہ لکھوی رحمہ اللہ ۔ دونوں کوعلمی حلقوں میں نحو وصرف کا امام ماناجاتا تھا۔
چوک دالگراں میں صرف پہلی کلاس پڑھی تھی اور دوسری کلاس کے لیے وہاں سے گوجرانوالہ میں چلے گئے۔

گوجرانوالہ میں
چوک دالگراں سے پہلی کلاس مکمّل کرنے کے بعد جامعہ اسلامیہ گوجرانوالا میں داخل لیا۔جس کے مؤسس حافظ محمدگوندلوی رحمہ اللہ تھے۔ وہاں پر تین سال کا عرصہ گزارا اورمشکوٰۃ تک کتابیں پڑھیں۔

جامعہ اسلامیہ گوجرانوالا کے مشائخ

جامعہ اسلامیہ گوجرانوالا کےمعروف اساتذہ میں شیخ حافظ محمد یحییٰ بھوجیانوی رحمہ اللہ،ان کے پاس دوسری کلاس کی کتب یعنی نحو میراورصرف میرجیسی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔
شیخ مولانا نذیر احمد امرتسری رحمہ اللہ تھےان کے پاس کافیہ وغیرہ اس قسم کی کتابیں پڑھی نائب شیخ الحدیث مولانافاروق احمد راشدی صاحب ان سے مشکوٰۃ اور اس کے علاوہ باقی کتب پڑھیں شیخ مولانا ابوالبرکات رحمہ اللہ سے کسب فیض کیا
گوجرانوالہ میں تقریباً تین سال پڑھاتے رہےاس کے بعد پھر عازم کراچی ہوا۔کراچی میں جامعہ عربیہ بنوریہ ٹاون ہے وہاں شیخ عطارزق مصری آئے تھے، وہاں ان کی شہرت سن کر انہوں نے کراچی کاارادہ کیا کہ وہاں قرأت پڑھیں اور ساتھ درس نظامی بھی
لیکن جب جامعہ عربیہ بنوریہ ٹاؤن کراچی پہنچے تو پتہ چلا کہ شیخ عطارزق مصر چلے گئے ہیں، چنانچہ پھر انہوں نے مدرسہ بحرالعلوم میں داخلہ لے لیا، جس کے مؤسس ایک بہت بڑے استاد مولاناعلامہ یوسف رحمہ اللہ کلکتہ والے تھے۔اس وقت یہ دوساتھی کراچی تعلیم کی غرض سے گئے تھے اوردوسرے ساتھی مولانا حفیظ الرحمن لکھوی حفظہ اللہ تھے۔
شیخ حفیظ الرحمن لکھوی حفظہ اللہ حبیب الرحمن لکھوی رحمہ اللہ کے بیٹے اور مولانا عطاء اللہ لکھوی رحمہ اللہ کے پوتے ہیں۔ مولاناحفیظ الرحمن لکھوی حفظہ اللہ نے جامعہ اسلامیہ مدینہ یونیورسٹی سے فارغ ہوکر رائیونڈ روڈ و سندر پر ’ جامعہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ‘ کے نام سے اپنے ادارے قائم کیے ہیں۔ نحو وصرف میں ’دکتوراہ‘ رکھتے ہیں۔ انہوں نے نحووصرف میں کتابیں بھی تالیف کی ہیں،
شیخ یحیی رسولنگری بحر العلوم میں تقریباَ پانچ سال پڑھتے رہے ہیں۔

بحرالعلوم کے اساتذہ کرام

شیخ یحیی رسولنگری 1965ء میں گے تھے اور1970ء تک وہاں اخذ فیض کیا ۔ یہاں اساتذہ کرام میں سے مولانا محمد داؤدراغب رحمانی رحمہ اللہ تھے،جو ان کو مسلم شریف اورہدایۃ وغیرہ پڑھاتے تھے۔ موصوف جامعہ رحمانیہ دہلی کے فارغ التحصیل تھے اور بے شمار کتب کے مترجم تھے۔ ابن ماجہ پر حاشیہ بھی لکھ چکے تھے۔ اسی طرح ایک ان کی مستقل تصنیف ہے الفضل الکبیر کے نام سے ہے۔دوسرے استاد مولانا نسیم الدین ولی اللہ فاضل دیوبند تھے۔ مولانا بڑے قابل آدمی تھے، وہ ممدوح کے ادب اور حدیث کے استاد تھے اور دورہ حدیث کے بڑے استادعلامہ محمد یوسف کلکتوی رحمہ اللہ ،جو ادارہ کے مہتمم بھی تھے، یہ پڑھاتے اور تدریس کے ساتھ ساتھ تجارت بھی کرتے تھے ۔ موصوف عالم باعمل اوربڑے مناظر تھے۔ انہی ایام میں ایک دیوبندی عالم کی مولانا کے ساتھ سورہ فاتحہ پرگفتگوہوئی۔ مولانا نے کہا کہ تم کیا پڑھاتے ہو؟تو اس نے کہا کہ میں منطق پڑھاتا ہوں۔ تومولانا نے کہا تمہارے ساتھ ہمارا مناظرہ منطق میں ہی ہوجائے۔ مولانا نے فرمایا تم یہ بتاؤ کہ لاصلوٰۃ کیا ہے؟ اس نے کہا کہ لاصلوٰۃ یہ’سالبہ کلیہ‘ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرآپ کہتے ہیں کہ لاصلوٰۃکوئی نمازنہیں ہے، تواس کی’ نقیض موجبہ جزئیہ‘ ہونی چاہئے اور ایسی دلیل ہو کہ اس میں الفاظ بعض الصلوٰۃ بغیر فاتحۃ کے ہوں، کیونکہ’ موجبہ جزئیہ‘ جوہے وہ لفظ بعض سے شروع ہوتا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ حدیث میں لاصلوٰۃ ہے، تو آپ کوئی حدیث دکھائیں کہ جس میں لکھاہوکہ بعض الصلوٰۃ جائز بغیر فاتحۃ وہ اس بات سے عاجزآگیا، تومولانا نے اس کومثال یہ دی کہ جب اللہ کے رسول ﷺ نے نمازپڑھائی اورآپ نے چار رکعت کی بجائے دورکعت پڑھادیں تو صحابہ نے ایک دوسرے سے سرگوشی کی اورکہاکہ رسول اللہ بھول گئے ہیں یانمازکم ہو گئی ہے توایک صحابی ذوالیدین نے آپؐ سے سوال کیا کہ أقُصِرَتِ الصلوۃُ أم نَسِیْتَ یا رسول اﷲﷺ؟آپ بھول گئے ہیں یا نمازکم ہوگئی؟ توآپؐ نے فرمایا نہ میں بھولا ہوں اورنہ نمازکم ہوئی ہے، توپھر ذوالیدین نے کہا کہ قد کان بعض ذلک یعنی اس نے حضورؐ کے بولے گئے ’سالبہ کلیہ‘ کو لفظ بعض کہہ کر توڑا تومولانا نے فرمایا کہ لہٰذا لاصلوٰۃ کی نقیض’ موجبہ جزئیہ‘ ہے، لہٰذا لاصلوٰۃ کا مطلب یہ ہوا کہ فاتحہ کے بغیر کوئی نماز نہیں ہوتی، تواب آپ دکھائیں کہ بعض الصلوٰۃ جائز بغیر فاتحۃ، تواس بات سے وہ شکست کھا گیا۔

شیخ محترم کے ہم مکتب احباب

صحیح بخاری کے ساتھیوں میں سے مولانا عبد العزیزکشمیری، مولانا فضل الرحمن ہزاروی اور مولانا ضیاء اللہ وغیرہ ہیں۔ اس طرح یہ کوئی پندرہ سولہ ساتھی تھے۔ شیخ الحدیث عبد العزیز علوی حفظہ اللہ(جامعہ سلفیہ فیصل آباد) بھی ان کے ساتھی تھے، جو اس وقت جماعۃ الدعوۃ کشمیر کے مسئول تھے ۔ مولانا عبد العزیز حنیف صاحب، اسلام آباد والے۔

درس نظامی کے ساتھ تجوید وقرأت میں شغف

درس نظامی(عربی کتب) کے ساتھ تجوید وقرأت سبعہ بھی مکمل کی۔ کراچی میں تجوید القرآن کے نام سے ایک مدرسہ تھا، وہاں قاری حبیب اللہ افغانی رحمہ اللہ استاد تھے۔ ممدوح ان کے پاس ظہر سے لے کر عشاء تک پڑھتے تھے۔ ان سے دوسال میں شاطبیۃ، عقیلۃ اورعدّ الآي وغیرہ پڑھیں اور قرأت ثلاثہ میں درہ کی تکمیل کی اورقاری صاحب رحمہ اللہ کو تقریباً پندرہ سولہ پارے قرأت سبعہ میں اورپندرہ سولہ پارے قرأت ثلاثہ میں حدرسنائے۔ تین سال میں قرأت سبعہ مکمل کی اورباقی دوسال میں قرأت ثلاثہ کی تکمیل کی یعنی کل پانچ سال ان سے استفادہ کیا۔

فارغ التحصیل ہونے کے بعد

فارغ ہونے کے بعد شیخ یحیی رسولنگری رحمہ اللہ نے ایک سال تک وہاں پڑھایا۔ پھربیمار ہونے کی وجہ سے واپس گاؤں آگے۔ یہاں آکر کچھ عرصہ انہوں نے اپنے گاؤں رسولنگر میں کام کیا۔ اس کے بعداستادالقراء قاری اظہار احمدرحمہ اللہ وہاں امتحان لینے کے لیے آئے اور فرمایا کہ گاؤں میں تمہارا بیٹھنا مناسب نہیں، تم کسی شہر میں آؤ۔ اسی دوران ہی ان کے پاس حافظ محمد یحیی عزیز میرمحمدی رحمہ اللہ تشریف لائے، جو جماعت کے ناظم تعلیم تھے۔ انہوں نے ممدوح کو مسجد لسوڑھیاں والی میں آنے کی دعوت دی۔ ایسے ہی راولپنڈی میں ایک مدرسہ تھاجس کے مہتمم مولانا محمد دین رحمہ اللہ تھے، انہوں نے ان کو راولپنڈی آنے کی دعوت دی۔ بہر صورت شیخ یحیی رسولنگری نے اساتذہ سے مشورہ کیا توشیخ المشائخ قاری اظہار احمدرحمہ اللہ نے فرمایا کہ تمہارا نیا نیاکام ہے، لہٰذا تم لاہور ہمارے قریب آجاؤ، استاد قریب ہو تومشاورت ہوتی رہتی ہے،چنانچہ شیخ المشائخ قاری اظہار احمدرحمہ اللہ کے مشورے پر لاہور آگے۔

لاہور میں کتنا عرصہ تدریس کی

شیخ یحیی رسولنگری رحمہ اللہ تقریباً آٹھ سال تک لاھور میں تدریس کرتے رہے ہے۔ وہاں سے کثیر تعداد میں طلباء فارغ ہوئے۔

مشہور تلامذہ

ان میں سے معروف قراء شمس القراء قاری محمد ابراہیم میرمحمدی حفظہ اللہ،
قاری صدیق الحسن رحمہ اللہ،
ڈاکٹر قاری عبدالقادر صاحب
جوجامعہ لاہور الاسلامیہ اور جامعہ ریاض کے فاضل ہیں
ڈاکٹر قاری عبدالغفارصاحب، جو جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ کے فاضل ہیں
قاری روح الامین صاحب بنگلہ دیشی، جو بہت خوش الحان قاری تھے،
قاری محمود الحسن بڈھیمالوی حفظہ اللہ،
قاری محمد جعفر صاحب،
قاری محمد حنیف بھٹی صاحب اور قاری خلیل الرحمن رحمہ اللہ،

ساہیوال میں تدریس کا آغاز

قاری محمد عزیر رحمہ اللہ نے ان کو مشورہ دیا کہ ساہیوال میں ایک بہت بڑی مسجد خالی پڑی ہے اوروہاں کی انتظامیہ چاہتی ہے کہ یہاں کوئی ادارہ قائم کیاجائے۔ اگر وہاں آپ کا رابطہ ہوجائے تومناسب رہے گا، لہٰذا انہوں نے اسی رمضان میں قاری محمد عزیر رحمہ اللہ کے مشورہ پر ساہیوال آئےاوردیکھا کہ یہ تقریباً تین کنال جگہ ہے،ایک بہت بڑی مسجد اور کچھ کمرے بھی تھے۔یہاں آکر قاری محمد یحیی رسولنگری رحمہ اللہ نے پڑھانا شروع کردیا۔

ساہیوال سے فارغ التحصیل ہونے والے طلباء

یہاں سے فارغ ہونے والے معروف تلامذہ کے درج ذیل ہیں
قاری عبدالسلام عزیزی حفظہ اللہ
قاری عبد الرزاق ثانی صاحب
قاری احمد یار حقانی صاحب
قاری محمدایوب چنیوٹی صاحب
،قاری سیف اللہ عزیزی صاحب
قاری محمد عبداللہ صاحب
قاری بشیر احمد عزیزی صاحب
قاری خالد مجاہدپتوکی والے
قاری اکبر اسد اور اسی طرح ان کا بیٹا قاری اظہار احمد ہے۔

ساہیوال میں کن مشکلات کاسامنا کرناپڑا

یہاں پر اساتذہ کا مزاج قراء والا نہیں تھا۔ویسے بھی ہرجگہ مدرسین کو مشکلات توہوتی ہیں۔یہاں بھی شروع میں جماعت کے ساتھ کچھ اختلاف ہوا، لیکن بعدمیں الحمد للہ سب ٹھیک ہوگیا۔

للبنات کا ادارہ قائم کیا

بچیوں کامدرسہ، طلباء کا مدرسہ قائم کرنے کے تقریباً تین چارسال بعد قائم ہو گیا تھا۔سبب اس کا یہ تھا کہ عارف والا سے حاجی محمد عاشق صاحب ان کے پاس آئے اورکہنے لگے کہ میری بچی تاندلیانوالہ میں پڑھتی ہے اور جب ہم تاندلیانوالہ جاتے ہیں تو پہلے ہمیں عارف والا پھر ساہیوال اس کے بعد تاندلیانوالہ جانا پڑتا ہے۔آپ یہاں بچیوں کامدرسہ قائم کیوں نہیں کردیتے؟ چنانچہ قاری یحیی رسولنگری رحمہ اللہ نے اُم سالم اور ان کی ہمشیرہ اُم انس کو اس کام پر لگادیا۔ اس جامعہ میں دوشعبے کام کر رہے تھے: شعبہ حفظ اورشعبہ کتب۔ شعبہ کتب اوّل تا آخر وفاق المدارس کی طرز پر کام کرتا رہا اوربہت کامیاب ہوا۔یہاں سے ہزاروں بچیاں فارغ ہوکرمیدان عمل میں مصروف ہیں۔پہلے یہ ادارہ جامعہ عزیزیہ کی اوپر والی منزل میں تھا، پھر اسے وہاں سے منتقل کرکے نیاشاداب ٹاؤن میں لے گئے ہیں،جہاں دومنزلہ عالیشان بلڈنگ او رساتھ ایک مسجد تعمیر کی ہے۔وہاں ان کی بڑی بیٹی حافظہ قاریہ طاہرہ (ایم اے عربی) بطورِ پرنسپل اور مدرس کام کررہی ہے۔

ماخذ

قاری المقری محمد یحیی رسولنگری رحمہ اللہ کے متعلق مزید تفصیلی مطالعے کے لیے آپ “رُشد لاہور “کا مطالعہ کیجیے جہاں سے ہم نے استفادہ کیا اور آگے نشرکیا ہے

وفات

تجوید وقرأت کا یہ آفتاب 1جون 2020ء کوغروب ہوگیا، انا للہ وانا الیہ راجعون
75برس کی عمرمیں اپنے مالک حقیقی سے جاملے
ان کی پہلی نماز جنازہ یکم جون بروز سوموار صبح 10 بجے کنعان پارک ساہیوال میں ادا کی گئی۔ جبکہ دوسری نماز جنازہ چک15 ون آر رسول نگر اوکاڑہ میں ادا کی گئی۔
نماز جنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور آہوں سسکیوں کے ساتھ آپ کو سپرد خاک کر دیا گیا۔
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ قاری المقری محمد یحیی رسولنگری رحمہ اللہ کی دینی، تدریسی اورتبلیغی خدماتِ جلیلہ کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور آپ کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائےآمین!

●ناشر: حافظ امجد ربانی
● فاضل: جامعہ سلفیہ فیصل آباد

یہ بھی پڑھیں: شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کامختصر تعارف