قاری صبغت اللہ احسن حفظہ اللہ کا تعارف

انسانی زندگی کبھی کبھار انجان راستوں پر گامزن ہو جاتی ہے، جہاں ہر قدم ایک نئی دریافت کا پتہ دیتا ہے۔ زندگی کا یہ سفر صرف مادی ضروریات کی تکمیل نہیں، بلکہ ایک اندرونی جستجو بھی ہے۔ ایسی جستجو جس کا مقصد صرف دنیاوی علم کا حصول نہیں، بلکہ روحانی روشنی تک پہنچنا ہے۔ کچھ لوگ اس سفر میں ٹھہر جاتے ہیں، راہیں بدلتے ہیں، اور بعض ان راستوں پر اپنی منزل پا لیتے ہیں جہاں علم اور ایمان کی سرحدیں آپس میں مل جاتی ہیں۔
یہ داستان ایک ایسی شخصیت کی ہے۔ جس کے بیان میں دلوں کو چھو لینے والی تاثیر ہے۔ یہ وہ خطیب ہیں جن کے لہجے میں سنجیدگی اور لطافت کا حسین امتزاج ہے۔ جب وہ کسی محفل میں بولتے ہیں تو سامعین نہ صرف انہیں سنتے ہیں بلکہ ان کے دل و دماغ میں وہ الفاظ جیسے نقش ہو جاتے ہیں۔ ان کا ہر بیان نکتہ دانی کا شاہکار ہوتا ہے۔ ایک ایسے نکتہ دان، جو ہر موضوع کو اس کی تہہ تک پہنچانے کا ہنر جانتا ہے۔ ان کی باتوں میں گہرائی ہوتی ہے، مگر اتنی شگفتگی اور سادگی کے ساتھ کہ بڑے سے بڑا مسئلہ بھی عام فہم بن جاتا ہے۔ ان کے جملے سوچ کے دروازے کھولتے اور ذہن کو تازگی بخشتے ہیں۔
خطابت ان کی زندگی کا محور ہے، لیکن اس کا حسن ان کی شخصیت کی گہرائیوں میں پوشیدہ ہے۔ وہ جب بولتے ہیں تو صرف الفاظ نہیں، بلکہ احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ان کی تقریریں صرف سامعین کو مسحور نہیں کرتیں، بلکہ انہیں غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں۔ ان کا خطاب کوئی عارضی جوش و خروش پیدا نہیں کرتا، بلکہ دلوں میں ایسی تبدیلی لاتا ہے جس کا اثر دیرپا رہتا ہے۔
ان کی تقریر کا ایک خاص پہلو یہ بھی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے مخاطبین کی ذہنی سطح اور حالات کے مطابق گفتگو کرتے ہیں۔ چاہے عوام الناس ہوں یا علماء و فضلاء، ان کی باتیں ہر ایک کے دل کو چھوتیں ہیں، اور ہر کوئی محسوس کرتا کہ یہ خطاب صرف اسی کے لیے کیا گیا ہے۔
ان کی داستانِ حیات میں علم، عمل اور حکمت کا وہ جوہر پوشیدہ ہے جو ایک حقیقی خطیب کی پہچان ہوتا ہے۔ وہ اپنی تقاریر کے ذریعے نہ صرف لوگوں کو متاثر کرتے ہیں بلکہ ان کی زندگیوں کو بدلنے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں بھی ان کا نام لیا جاتا ہے وہاں ایک احترام کا احساس جاگ اٹھتا ہے۔ یہ کہانی ایک ایسے دلپذیر مقرر کی ہے، جس نے الفاظ کے ذریعے دلوں کو جیتا ہے۔
یہ خاکہ ایک ایسے خاندان کی داستان ہے جو اپنے دینی ذوق و شوق اور تعلیمات کے لیے معروف ہے۔ یہ خاندان 1974 میں جڑانوالا کے قریب 64|11 ڈوگراں والا گاؤں میں اپنے قدیم ورثے کے ساتھ پروان چڑھا۔ خاندان کے ننھیال اور ددھیال اسی گاؤں میں رہتے تھے، اور ان کا تعلق فیروز پور، ہندوستان سے تھا، جہاں سے وہ قیام پاکستان کے بعد ہجرت کر کے آئے تھے۔
اس خاندان میں دینی رغبت کی ابتدا دادا جان سے ہوئی۔ ان کا اصل پیشہ مویشی پالنا تھا، لیکن ایک دن اچانک اپنے تمام کام چھوڑ کر وہ کہیں چلے گئے۔ سالوں تک کسی کو ان کی کوئی خبر نہ ملی، کچھ لوگوں نے یہ گمان کیا کہ وہ وفات پا چکے ہیں۔ مگر جب قیام پاکستان کا وقت آیا، تو خاندان والوں کو علم ہوا کہ دادا جان ڈھنگ شاہ میں مقیم ہیں۔ جب وہ واپس لوٹے تو ایک نئے انسان بن کر آئے۔ وہ اب حافظ قرآن اور عالم دین تھے۔ واپس آنے کے بعد انہوں نے اوکاڑا کے قریب ایک گاؤں میں شعبہ حفظ میں تدریس شروع کی اور لوگوں کو قرآن کی تعلیم دینے لگے۔
دادا جان کے بعد، ان کے بیٹے یعنی آپ کے چچا حافظ غلام نبی بھی حافظ قرآن بنے۔ پھر آپ کے والد محترم نے بھی حفظ کا سلسلہ شروع کیا، اور وہ ولی کامل حافظ یحییٰ عزیز میر محمدی رحمة اللہ علیہ کے ہاتھوں میر محمد میں حفظ قرآن مکمل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
آپ کے والد محترم نے حفظ کے بعد دینی تعلیم کا شوق مزید بڑھایا اور وہ دورہ حدیث کے لیے خانیوال گئے۔ وہاں ان کے اساتذہ نے انہیں دیوبندی معروف مدرسہ کبیر والا میں داخل کروایا، جہاں ان کے ہم کلاس معروف دیوبندی عالم دین مولانا حق نواز جھنگوی شامل تھے۔ انہوں نے مولانا خیر محمد جالندھری سے بخاری شریف کا درس لیا اور دیوبندی مکتبہ فکر کے ہاں خاصا وقت گزارا۔
یہ خاندان اپنے علم، دینی خدمات، اور قرآن کی تعلیمات کو آگے بڑھانے میں ہمیشہ سے پیش پیش رہا ہے، اور آج بھی اس کے افراد دین کی خدمت اور علم کے فروغ میں مصروف عمل ہیں۔
آپ کی زندگی ایک ایسی درخشاں کہانی ہے جو علم و ادب، خلوص و محبت، اور دین کی خدمت کے تابناک چراغوں سے روشن ہے۔ یہ داستان کسی عام سفر کی نہیں بلکہ ایک ایسے مسافر کی ہے جو اپنے راستے میں آنے والے ہر مشکل موڑ اور ہر کٹھن امتحان کو استقامت، عاجزی، اور محبت سے عبور کرتا رہا۔
آپ کی زندگی کا یہ روشن سفر جامعہ تعلیمات اسلامیہ سرگودھا سے شروع ہوا، جہاں حافظ مشتاق صاحب اور دیگر اساتذہ نے آپ کی تربیت کا آغاز کیا۔ یہ ابتدائی تعلیم گویا آپ کی شخصیت کے خدوخال سنوارنے کا ایک عمل تھا، جہاں ہر استاد نے اپنی محبت اور علم کا خزانہ آپ پر نچھاور کیا۔ استادوں کا یہ فیضانِ علم آپ کے قلب و ذہن کو علم کے نور سے منور کرتا گیا اور آپ کے دل میں دین کی محبت کے بیج بو دیے۔
جامعہ سلفیہ میں آپ نے اساتذہ کرام کے زیر سایہ علمی آبیاری کی۔ یہاں آپ کے استاد محترم شیخ الحدیث مسعود عالم، مفتی عبدالحنان، حافظ محمد شریف اورباباجی
ثناء اللہ بورے والے جیسے نابغہ روزگار اساتذہ تھے جنہوں نے آپ کو نہ صرف علم کے اسرار و رموز سے روشناس کیا بلکہ آپ کے اندر اسلامی اصولوں اور اقدار کی روشنی بھی پھیلائی۔ جامعہ کی فضاؤں میں گزرتا وقت، آپ کے اندر علم کا شوق اور بڑھا، اور آپ کی شخصیت کو مزید سنوارا۔
علم کی پیاس نے آپ کو کلیہ دارالقرآن تک کھینچ لایا۔
کلیہ دارالقرآن کا سفر اور وہاں کے استاد محترم آپ کی زندگی کے گوہر نایاب ہیں، جو علم و معرفت کی روشنی سے بھرپور تھے۔ مولانا عبداللہ واروالوی کے قائم کردہ اس ادارے میں آپ نے علم کی پیاس بجھانے کے لیے قدم رکھا۔ یہ ادارہ اپنے آپ میں ایک تاریخ تھا اور وہاں کی فضا میں علم و حکمت کی خوشبو بسی تھی۔
شیخ الحدیث مولانا عبداللہ امجد چھتوی اسی ادارے سے پڑھے ہوئے ہیں انہی کے شاگرد مولانا عتیق اللہ سلفی نے بھی کسب فیض کیااور چوہدری یاسین ظفر بھی وہاں پڑھے ہیں اس ادارے میں آپ نے پڑھا تو وہاں آپ کے نامور اساتذہ عبداللہ بڈھیمالوی؛ مولانا عبدالرحمن ساہی وال ؛ مولانا عبدالشکور ؛مولانا مو لانا حبیب الرحمن خلیق تھے ابن ماجہ استاد العلماء شیخ الحدیث مولانا قدرت اللہ فوق سے پڑھی ہے امام شوکانی کی فتح القدیرحافظ عبدالغفاراعوان سے پڑھی۔ ایک سال ستیانہ بنگلہ میں زیر تعلیم رہے۔ وہاں شیخ الحدیث مولانا عبداللہ امجد چھتوی سے جامع ترمذی کا سبق لیا۔ وہاں ایک سال میں فتح القدیر حافظ عبدالغفار اعوان سے؛ بلاغہ مولانا غلام اکبر سے پڑھی۔
خطابت کی ابتدا آپ نے درس نظامی کی دوسری جماعت میں کی، اور یوں گوجرہ کے قریب گاؤں کٹھور کلاں میں خطبہ دینے کا آغاز کیا۔ آپ نے سات سال تک یہاں کی عوام کو خطبے دیے، جس سے آپ کی بات کی تاثیر اور شخصیت میں مزید پختگی آتی گئی۔ بعد ازاں آپ ساتھیوں کی مشاورت سے2008 میں، ٹھینگ موڑچوک والی مسجد میں خطابت کا سلسلہ شروع کیا۔ یہاں سے آپ کی شخصیت کی روشنی نے لوگوں کے دلوں کو جذب کر لیا، اور دیکھتے ہی دیکھتے مسجد کا احاطہ لوگوں سے بھرنے لگا۔ آپ کے خطبات کی وجہ سے مسجد کی فضا دین کی محبت سے لبریز ہوگئی اور لوگ دُور دُور سے آپ کی بات سننے آنے لگے۔ آپ کی محنت، اخلاص، اور عزم نے مسجد کو صرف ایک عبادت گاہ نہیں بلکہ لوگوں کے دلوں کو روشن کرنے کا مرکز بنا دیا۔
2000میں آپ کی شادی ہوئی، جو آپ کی زندگی کا ایک نیا باب تھا۔ مگر خوشیوں کے اس لمحے میں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو آزمائش میں بھی ڈالا اور تین ماہ بعد والد محترم کا انتقال ہو گیا۔ اس صدمے نے آپ کو مغموم کر دیا، مگر آپ نے اللہ کے فیصلے کو صبر کے ساتھ قبول کیا اور اپنے خاندان کو تسلی دی۔ اللہ نے آپ کو چھ بیٹوں سے نوازا، جو آپ کے دل کا چین اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں۔ ان کے نام—کلیم اللہ، زبیح اللہ، خلیل اللہ، مطیع اللہ، عظیم اللہ، اور انعام اللہ۔ آپ کے دین سے محبت اور اسلامی ورثے سے وفا داری کا ایک زندہ ثبوت ہیں۔
آپ کی زندگی کے یہ لمحات، آپ کی خطابت اور دینی خدمات لوگوں کے دلوں میں آپ کے لیے محبت اور احترام پیدا کر چکے ہیں۔ مسجد اقصیٰ میں درس قرآن کے دوران جب لوگ آپ کے گرد جمع ہوتے ہیں تو علم کی وہ چمک ان کے چہروں پر ظاہر ہوتی ہے۔ ماسٹر رحمۃ اللہ کشمیری جیسے افراد کے ساتھ آپ کے تعلقات نے آپ کو دین کے راستے پر ثابت قدم رہنے کی تقویت دی۔
آپ کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اخلاص اور محنت سے اللہ کے راستے میں کی جانے والی کوششیں کبھی بے اثر نہیں ہوتیں۔ آپ کی یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے کیا گیا کام انسان کو عزت و توقیر سے نوازتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی محنتوں کو قبول فرمائے اور آپ کی اولاد کو بھی دین کی خدمت میں لگائے۔
یہ ایک روشن داستان ہے، ایک ایسے چراغ کی کہ جو اپنے اندر محبت، علم، اور دین کی محبت کی لو رکھتا ہے۔

صہیب یعقوب