سوال (3637)

ایک شخص نے دوسرے شخص کو قرض دیا ہے ، اب کیا اس قرض کی رقم کو صدقے میں شمار کر سکتا ہے؟

جواب

درحقیقت قرض معاف کردینا بھی صدقے کی ایک شکل ہے، باقی ایسا تو نہیں ہے کہ پیسے پھس گئے ہیں، مل نہیں رہے، اب وہ کہہ رہا ہے کہ اسی بہانے صدقے کا ثواب کمالیں۔ پھر یہ معاملہ مشکوک ہو جائے گا۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل: شیخ صاحب حقیقت تو یہی ہے ایسا ہی معاملہ ہے تو پھر مزید رہنمائی فرما دیں کیا کرنا چاہیے؟
جواب: پھر یہ جائز نہیں ہوگا، پیسے پھنس جانے کی وجہ سے ایسا کر رہا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کا حق کھا رہا ہے، زکاۃ حق و فریضہ ہے، اس میں پیسے پھنس جانے کی وجہ سے ایسا نہ کرے۔ یہ باطل ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل: شیخ صاحب اس کو زکوٰۃ تو شمار نہیں کیا جائے گا، کیا یہ نفلی صدقہ بھی شمار نہیں ہو گا۔
جواب: جی، نفلی صدقہ شمار ہوگا، لیکن اس کو صدقہ بھی کرنا چاہیے، یہ نہ سمجھے کہ میں نے اتنا قرض معاف کر کے صدقہ کرلیا ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

’’قرض کے بدلے زکاۃ کٹوانا‘‘
اگر صاحبِ نصاب شخص پر زکوٰۃ واجب ہو اور اس نے کسی غریب کو قرض دے رکھا ہو تو وہ زکوٰۃ کی مَد میں اُس قرض کو نہیں کٹوا سکتا۔
صورتِ مسئلہ یوں ہے کہ کسی شخص نے ایک غریب کو قرض دیا ہو اور جب اس شخص کی زکوٰۃ ادا کرنے کا وقت آئے تو کہے کہ جتنی مجھ پر زکوٰۃ بنتی ہے اتنا اُس غریب کا قرض معاف کر کے اسے زکوٰۃ شمار کر لیتا ہوں۔
متاخرین علماء کا اتفاق ہے کہ ایسا کرنا درست نہیں ہو گا اور نہ ہی زکوٰۃ ادا ہوگی۔
⇚ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٧٢٨هـ) فرماتے ہیں:

وأمَّا إسقاطُ الدَّينِ عنِ المعسِر، فلا يُجزِئ عن زكاةِ العَينِ بلا نِزاع.

’’اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ تنگ دست کو زکوٰۃ معاف کر دینے سے زکاۃِ عین ادا نہیں ہوتی۔‘‘
(مجموع الفتاوى : ٢٥/ ٨٤، الاختيارات الفقهية، ص: ٤٥٧)
⇚امام ابو عبید القاسم بن سلام رحمہ اللہ (٢٢٤هـ) اس رائے کو امام سفیان ثوری، عبد الرحمن بن مہدی اور امام مالک رحمہم اللہ سے نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

كَذَلِكَ هُوَ عِنْدِي غَيْرُ مُجْزِئٍ.

’’اسی طرح میرے نزدیک بھی ایسے زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی۔‘‘ (الأموال، ص : ٥٣٣)
⇚ تمام فقہی مذاہب، حنفیہ (المبسوط للسرخسي: ٢/ ١٨٧)، مالکیہ(مواهب الجليل للحطاب: ٣/ ٢٢٤) شافعیہ (المجموع للنووي: ٦/ ٢١٠) اور حنابلہ (الفروع لابن مفلح: ٤/ ٢٨٨) کا بھی یہی موقف ہے۔
⇚ علماء نے اس طرح زکوٰۃ کے عدم اجزاء کی کئی وجوہات بیان کی ہیں:
1)۔ اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺ کو حکم دیا:

﴿خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ﴾.

’’آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کر دیں اور ان کے لئے دعا کیجئے۔‘‘ (سورة التوبة : ١٠٣)
اور رسول اللہ ﷺ کا زکوٰۃ جمع کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ آپ مالداروں سے زکوٰۃ جمع کرتے تھے اور اسے فقراء میں تقسیم کر دیتے تھے اور یہی طریقہ آپ کے بعد خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا رہا، ہمیں ان میں سے کسی کے متعلق نہیں ملتا کہ انہوں نے کسی کو قرض کے بدلے زکوٰۃ شمار کرنے کی اجازت دی ہو جبکہ ہمارے علم میں ہے کہ ان کے ہاں قرض کا باہمی تبادلہ ہوا کرتا تھا۔
2۔ زکوٰۃ باقاعدہ عبادت کی نیت سے اپنی ملکیت میں موجود مال کے ساتھ عطا کی جاتی ہے، جبکہ یہاں قرض دیتے وقت کوئی نیت نہیں ہوتی اور جب پیسے اپنے ہاتھ میں نہیں تو انہیں کٹوا دیا جاتا ہے جو کہ معین عبادت میں درست نہیں۔
3۔ نقد کے مقابلے میں قرض یا ادھار کم تر چیز شمار ہوتی ہے، اس لیے اپنے مال کی نقد کے مقابلے میں قرض معاف کرنا طیب کے بدلے خبیث کا اختیار ہے جبکہ اللہ تعالی نے صدقے کی بابت حکم دیا ہے:

﴿وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلَّا أَن تُغْمِضُوا فِيهِ﴾.

’’کوئی ردی چیز خرچ کرنے کا قصد نہ کرو۔ حالانکہ وہی چیز اگر کوئی شخص تمہیں دے تو ہرگز قبول نہ کرو الا یہ کہ چشم پوشی کر جاؤ۔‘‘ (سورة البقرۃ: ٢٦٧)
4۔ اس صورت میں یہ خدشہ بھی ہے کہ مال دار شخص جب فقیر سے قرض واپس نہ ملنے سے مایوس ہو چکا ہوگا تو وہ اپنا مال بچانے کی نیت سے زکوٰۃ کاٹ لے گا جو کہ اخلاص کے بالکل منافی اور حیلے کی بد ترین صورت ہے۔ (الأموال لأبي عبيد، ص: ٥٣٤، المجموع للنووي : ٦/ ٢١٠، الشرح الممتع : ٦/ ٢٣٧)
⇚ بعض تابعین جیسا کہ امام عطاء بن ابی رباح (الأموال لأبي عبيد : ١٢٤١ وسنده صحیح) اور حسن بصری رحمہما اللہ (أيضا ورجاله ثقات) سے اگرچہ اس کی رخصت مروی ہے۔ لیکن یہ رائے بعد میں کسی نے اختیار نہیں کی جیسا کہ امام ابو عبید القاسم بن سلام رحمہ اللہ (٢٢٤هـ) فرماتے ہیں:

وهذا مذهبٌ لا أعلَمُ أحدًا يعمل به، ولا يذهَبُ إليه مِن أهلِ الأثَرِ وأهلِ الرأي.

’’میرے علم کے مطابق اس موقف پر کسی کا عمل نہیں اور نہ اہل حدیث میں سے کسی نے اسے اختیار کیا ہے اور نہ ہی اہل رائے میں سے کسی نے۔‘‘ (الأموال، ص: ٥٣٣)
⇚ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (٢٤١هـ) کے بیٹے صالح رحمہ اللہ نے ان سے پوچھا:
’’کسی آدمی کا مسکین کے ذمے مال ہو اور اس پر زکوٰۃ فرض ہو جائے تو وہ اسے وہ قرض معاف کر کے اسے زکوٰۃ شمار کر لے؟
انہوں نے فرمایا: نہیں، اسے زکوٰۃ شمار نہ کرے کیونکہ اس مال کے متعلق کچھ پتا نہیں کہ وہ اُس تک پہنچے یا نہ پہنچے۔‘‘ (مسائل أحمد برواية ابنه صالح: ١٧١٤)
⇚ شیخ ابن باز رحمہ اللہ (١٤٢٠هـ) فرماتے ہیں:
’’زکوٰۃ کی نیت کر کے کسی کا قرض کاٹنا جائز نہیں…. کیوں کہ زکوٰۃ کا مقصد مستحق پر مال خرچ کرنا ہے نہ کہ قرضے معاف کروانا۔‘‘ (مجموع الفتاوی : ١٤/ ٢٨١ مفهوما)
⇚ شیخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ (١٤٢١هـ) فرماتے ہیں:
’’انسان کے لیے جائز نہیں کہ وہ فقیر کا قرض معاف کر کے اسے زکوٰۃ شمار کر لے، کیوں کہ زکوٰۃ میں لین اور دین دونوں شامل ہوتے ہیں، اللہ تعالی فرماتے ہیں: آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجیے۔ اور فرمایا: نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔ لہذا لین اور دین ہونا ضروری ہے، قرض معاف کر دینے میں یہ نہیں ہوتا اور ویسے بھی نقد کے مقابلے میں ادھار کم تر چیز ہوتی ہے۔‘‘ (فتاوى نور على الدرب، الشريط : ٢٧٨)

✿ دوسرا مسئلہ؛
اگر کوئی مالدار شخص اپنے مقروض غریب کو اس شرط پر زکوٰۃ دے کہ یہ لے لو اور اس میں سے اب مجھ سے لیا ہوا قرض واپس کر دو۔
تو ایسا کرنا بھی درست نہیں بلکہ یہ بھی حیلے کی بد ترین صورت ہے۔
⇚ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

إذا كان له دَينٌ على من يستحقُّ الزَّكاةَ فأعطاه منها وشارَطه أن يُعيدها إليه لم يجُزْ، وكذا إن لم يشرطْ لكن قصَدَه المُعطي في الأظهَرِ.

’’اگر کسی مستحق کے ذمے اس کا قرض ہو تو وہ اسے زکوٰۃ دے اور شرط لگائے کہ اسے قرض واپس کر دے تو جائز نہیں ہے، اسی طرح اگر شرط تو نہ لگائے لیکن دینے والے کا قصد یہی ہو تو علماء کے ظاہر و قوی قول کے مطابق جائز نہیں۔‘‘ (الإختيارات الفقهية: ٤٥٧)
⇚ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’باطل اور حرام حیلوں میں سے یہ بھی ہے کہ بندے نے کسی شخص سے قرض واپس لینا ہو اور قرض دینے والا غریب و مفلس ہو چکا ہو، اسے پیسے واپس ملنے کی امید نہ ہو تو یہ اپنی زکوٰۃ میں سے اتنی مقدار اپنے مقروض کو دے کر اس سے ادائیگی کا مطالبہ کر لے، اس طرح اس کی زکوٰۃ بھی ادا ہو گئی اور پیسے بھی واپس آ گئے، یہ باطل حیلہ ہے۔‘‘ (أعلام الموقعين: ٣/ ٣٤٥ ملخصا)
⇚ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے بھی اس صورت کو حیلہ قرار دے کر ناجائز کہا۔ (المغني لابن القدامة: ٢/ ٤٨٧) علمائے شافعیہ (المجموع للنووي : ٦/ ٢١١) اور حنابلہ (شرح منتهي الارادات للبهوتي : ١/ ٤٦٢) کا یہی موقف ہے۔

✿۔ حاصلِ کلام یہ ہوا کہ زکوٰۃ کی مد میں قرض کا حساب برابر کرنا بالکل درست نہیں اور نہ ہی ایسی صورت میں زکوٰۃ ادا ہوگی۔ اسی طرح مقروض کو اس شرط پر زکوٰۃ دینا کہ مجھ سے لیے ہوئے قرض کی ادائیگی کرو تو یہ بھی درست نہیں۔ و اللہ أعلم۔

کتبہ؛ حافظ محمد طاھر
(المسجد النبوي، ٢٣ شعبان ١٤٤٤هـ، 14 مارچ 2023ء)

فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ