سوال           (97)

میرا سوال یہ ہے کہ اگر میں کسی کو دو لاکھ روپے ایک مہینے کے لیے دیتی ہوں ،  وہ مجھے واپس تین لاکھ روپے دیتے ہیں تو اس میں جو ایک لاکھ روپے پرافٹ ہوتا ہے ، اگر اس کو میں کسی چیز پہ لگاتی ہوں جیسے گولڈ لے لیتی ہوں ، یہ گھر کا فرنیچر لے لیتی ہوں تو کیا وہ بھی سود میں ہی آئے گا کیونکہ سود تو کھانے پہ ہوتا ہے نا وہ ہم کھا تو نہیں رہے ہیں ، جیسے بینک سے اگر ہم گاڑی نکلواتے ہیں تو اس پہ بھی تو سود ہوتا ہے تو بس مجھے یہ کلیئر کرنا تھا کہ میں یہ لے سکتی ہوں ، اگر میں یہ لے لوں کیونکہ میری تھوڑی مجبوری بھی ہے تو میں لوں اور اس کے بعد جو ہے اگر میں یہی بات پیسے جمع کر کے اپنے پیسوں میں سے اور صدقہ وغیرہ دے دوں تو وہ قبول ہو جائے گا اور میری توبہ جو ہے وہ قبول ہو جائے گی کہ نہیں ؟

جواب

اس میں یہ ہے کہ دو لاکھ دے کر تین لاکھ کیوں لیے جا رہے ہیں ، جبکہ اصل رقم دو لاکھ ہے ، اصل پر جو مزید لیں گے وہی سود ہے ، سود لینا ہی کھانا ہے ، کرنسی نوٹ کھایا نہیں جاتا لیکن کھانا اسی سے آتا ہے ۔

پھر گناہ سمجھ کر گناہ کرنا تو پھر توبہ کیسی ؟  مہلت ہی نہ ملی تو ؟

لہذا 2  لاکھ ہی لیں اور اپنی ضرورت محدود رکھ کر سود سے محفوظ رہیں۔

فضیلۃالعالم اكرام الله واحدى حفظہ اللہ